بلوچستان؛ مخصوص نشستوں پر نامزدگیاں، بڑی جماعتوں میں اختلافات

پاکستان پیپلز پارٹی خواتین ونگ کی رہنماؤں کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے مخصوص نشستوں پر پارٹی رہنماؤں کی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کو نوازا جا رہا ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔ ہم نے احتجاج کیا اور دھرنا بھی دیا۔ ہم اپنے حق کے لئے آواز بلند کرتے رہیں گے۔

بلوچستان؛ مخصوص نشستوں پر نامزدگیاں، بڑی جماعتوں میں اختلافات

بلوچستان میں انتخابات کے دوران مخصوص نشستوں پر پارٹی ورکرز کے بجائے نوواردوں کو نوازنے پر سیاسی جماعتو ں میں اختلاف رائے طول پکڑ گیا۔ ملک کی تین بڑی پارٹیوں کے ورکرز نے بطور احتجاج استعفے دینے شروع کر دیے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سینئر رہنما خالد کبدانی ایڈووکیٹ نے اپنے ساتھیوں سمیت پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ خالد کبدانی کے استعفیٰ کے بعد پیپلز پارٹی خواتین ونگ نے بھی احتجاج اور دھرنا شروع کر دیا۔ مسلم لیگ ن مینارٹی ونگ کے صوبائی صدر پیٹرک ایس ایم نے بھی اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں پر صوبائی قیادت کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کی دھمکی دے دی۔

جمعیت علمائے اسلام نے بلوچستان سے قومی و صوبائی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے امیدواروں کی ترجیحی فہرست صوبائی الیکشن کمیشن کو جمع کرا دی۔ جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر عالیہ کامران، آسیہ ناصر، صفیہ حفیظ، صفیہ زوجہ مفتی فضل الرحمان جبکہ صوبائی اسمبلی میں خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر شاہدہ رؤف، صفیہ زوجہ مفتی فضل الرحمان، معصومہ احمد بلوچ، طیبہ، صائمہ نعمان، بی بی مریم، کلثوم، صابرہ ناصر ایڈووکیٹ، بی بی زلیخا اور آسیہ بی بی کو نامزد کیا گیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی میں اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں پر روی بہپیو، مکھی شام لال، ڈاکٹر درشن کمار ارو ڈاکٹر جے پرکاش کو نامزد کیا گیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کی بلوچستان سے قومی و صوبائی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے امیدواروں کی ترجیحی فہرست جاری ہونے کے بعد  مرکزی رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل خالد احمد کبدانی ایڈووکیٹ نے ساتھیوں سمیت جمعیت علمائے اسلام کو خیرباد کہہ دیا۔ خالد کبدانی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اب جمعیت علمائے اسلام میں نظریاتی سیاست نہیں رہی، جماعت کو نظریاتی ساتھیوں کے بجائے سرمایہ داروں کی ضرورت ہے۔ پارٹی میں چند مخصوص لوگوں کو سینیٹ اور مخصوص نشستوں پر نوازا جا رہا ہے۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں اپنے ساتھیوں سمیت جمعیت علمائے اسلام سے علیحدگی اختیار کرنے کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا جمعیت علمائے اسلام کے لئے ہر پلیٹ فارم پر قربانی دی لیکن پارٹی نے موجودہ وقت میں جو پالیسی اختیار کی ہے وہ آنے والے وقت میں پارٹی کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ جمعیت علمائے اسلام نے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ اور رؤف عطاء ایڈووکیٹ کی اہلیہ کو خواتین کی نشست سے ٹکٹ دے کر یہ تاثر دیا کہ پورے بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام میں خواتین کی نشستوں کیلئے کوئی اور امیدوار نہیں ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے بلوچستان سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لئے امیدواروں کی فہرست صوبائی الیکشن کمیشن کو جمع کروا دی۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق بلوچستان سے قومی اسمبلی کی خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر غزالہ گولہ، بی بی ازبل، شمع پروین مگسی، کلثوم افتخار، کرن بلوچ، ماریہ قادر بلوچ، نفیسہ شاہوانی اور ماہ جبین خالد کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ بلوچستان اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے لئے غزالہ گولہ، مینہ بلوچ، شہناز عمرانی، عشرت، زرینہ زہری، زرینہ حافظ عبدالمجید، ثمینہ خان، ثناء درانی، سکینہ عبداللہ، خالدہ نسرین کھیتران، کشور احمد جتک، سائرہ خان گورگیج اور زمر شاہد کو نامزد کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بلوچستان اسمبلی میں اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں پر نام چند، سنجے کمار، جعفر جارج، اشوک کمار اور چوہدری سلامت شان کو نامزد کیا گیا ہے۔ ان نامزدگیوں کے خلاف پیپلز پارٹی خواتین ونگ سے منسلک خواتین کارکنان نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کے معاملے پر پارٹی دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور تین روز تک دھرنا دیا۔ مظاہرین پلے کارڈز اٹھائے مبینہ بندر بانٹ پر نالاں تھے۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر پیپلز پارٹی کے پرانے ورکرز کو نظرانداز کیا گیا اور نئے شامل ہونے والوں کو ترجیح دی گئی ہے جو انہیں قبول نہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی وومن ونگ بلوچستان کی رہنماؤں ثناء درانی، حنا گلزار اور دیگر خواتین کارکنوں کا کہنا تھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے مخصوص نشستوں پر پارٹی رہنماؤں کی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کو نوازا جا رہا ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں کسی بھی قسم کا کوئی اختلاف نہیں لیکن ہم اپنے حق کے لئے آواز ضرور بلند کریں گے۔

ان خواتین کارکنوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی وومن وونگ بلوچستان کی خواتین کی جانب سے خواتین ورکرز کے غصب کئے گئے حقوق پر احتجاج شروع کیا ہے۔ ہم نے دھرنا بھی دیا تھا جو مرکزی قائدین کی یقین دہانی پر اور ان کے احترام میں مؤخر کیا گیا۔ وومن ونگ کے دھرنے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارا دھرنا کسی مخصوص مرکزی و صوبائی عہدیدار کے خلاف نہیں بلکہ تمام ذمہ داروں کے خلاف ہے جنہوں نے ہمارے حقوق ہم سے چھینے ہیں۔ انہوں نے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے مطالبہ کیا کہ قومی و صوبائی اسمبلی کے لئے ترجیحی لسٹ سے غیر متعلقہ من پسند رشتہ دارخواتین کو نکال کر پارٹی کی حقیقی کارکن اور  سینئر خواتین کو نمائندگی دیتے ہوئے نئی لسٹ جاری کی جائے۔

مسلم لیگ ن نے بلوچستان سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لئے امیدواروں کی فہرست صوبائی الیکشن کمیشن کو جمع کرا دی۔ مسلم لیگ ن کے الیکشن کمیشن میں جمع ہونے والے اعلامیے کے مطابق خواتین کی مخصوص نشستوں پر راحیلہ درانی، رائلہ حمید خان درانی، نادیہ ناز، روبیہ دلیدی، زینت شاہوانی، رشیدہ بی بی درانی، روبینہ بی بی، راحت جمالی، فرحت ناز اور مشال خان کو نامزد کیا گیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں پر اشوک کمار اور پیٹرک سنت کو نامزد کیا گیا ہے۔

مسلم لیگ ن کے اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں پر نامزد امیدوار اور پاکستان مسلم لیگ مینارٹی ونگ کے صوبائی صدر پیٹرک سنت نے کہا ہے کہ اقلیتی حوالے سے میرا نام پہلے نمبر پر تھا لیکن صوبائی صدر نے دوسرے نمبر پر ڈال کر مجھے نظرانداز کر دیا۔ اس پر میں نے مرکزی قیادت سے مطالبہ کیا اور انصاف کیلئے ہائی کورٹ کا دروزہ کھٹکھٹایا جہاں تمام ثبوت اور حقائق پیش کرنے کے بعد عدالت نے میرے حق میں فیصلہ دیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی صوبائی قیادت کی جانب سے مرکزی قیادت کے فیصلے کو تبدیل کرنا یا اس پر عمل درآمد نہ کرنا پارٹی فیصلوں اور اصولوں کی خلاف ورزی ہے کیونکہ صوبائی صدر کے پاس اختیار نہیں ہے کہ اپنی طرف سے الیکشن کمیشن کو فہرست جاری کرے۔ پارٹی کی صوبائی قیادت کی جانب سے میرا نام تبدیل کرنا سراسر زیادتی تھی۔

فیروز خان خلجی صحافی ہیں اور ان کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے۔ وہ جیو نیوز کے کوئٹہ بیورو سے منسلک ہیں۔