بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے کے اعلان کے ساتھ ہی امریکہ - سعودی تعلقات کے راؤنڈ ون میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کامیاب ٹھہرے ہیں۔ صدر بائیڈن نے حکومت سنبھالنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ سعودی حکومت کے ساتھ تعلقات کو وہ سعودی بادشاہ کی سطح پر نبھائیں گے جو ولی عہد کی طرف سرد مہری پر مبنی رویہ کا واضح پیغام تھا۔ بائیڈن انتظامیہ خاشقجی کے قتل کے ساتھ ساتھ محمد بن سلمان کے صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے خائف تھی۔
بائیڈن انتظامیہ نے سعودی حکومت کے چند اہم عہدیداروں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی بھی عائد کی تھی اور ان عہدیداروں کے ناموں کے بارے میں چہ میگوئیاں بھی ہوتی رہیں کہ کیا ان میں خود ولی عہد کا نام بھی شامل تھا؟ بہرحال حالات اب تبدیلی کی طرف گامزن ہیں اور صدر بائیڈن کے دورہ سعودی عرب کے ساتھ ہی ولی عہد محمد بن سلمان کی دیرینہ خواہش پوری ہو رہی ہے کہ امریکہ ان کے ساتھ مستقبل کے حکمران کے طور پر ہی ڈیل کرے۔
دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی سعودی عرب کی آمدنی میں بھی خوب اضافہ ہوا ہے اور اس وقت معاشی طور پر سعودی حکومت خطے میں ایک بار پھر اپنے اثر و نفوذ کے اظہار کے لئے تیار ہے۔ محمد بن سلمان کے سیاسی مخالفین ایک ایک کر کے ان کے سامنے ڈھیر ہو رہے ہیں جن میں ترکی کے صدر اردغان بھی شامل ہیں جنہوں نے حال ہی میں بھرپور تناؤ پر مبنی ایک دور گزارنے کے بعد سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔ اردغان کے ترکی واپسی کے بعد ترکی میں قیام پذیر سعودی مخالف اخوانی نیٹ ورک کو بھی خاموش کروانے کا آغاز کر دیا یے۔ اردغان کی خواہش ہے کہ سعودی عرب کے تعاون سے کسی طرح ترکی کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا جائے اور اگر تعلقات میں اس حد تک بہتری نہ بھی ہو تو ترکی کے آئندہ الیکشن میں محمد بن سلمان کو اردغان مخالف جماعتوں کی کسی بھی طرح کی مدد سے باز رکھا جا سکے۔
اردغان کے دورے کے بعد صدر بائیڈن کا سعودی عرب کا دورہ محمد بن سلمان کی لئے اندرونی اور بیرونی محاذوں پر تقویت کا باعث بنے گا۔ سعودی عرب نے حالیہ سالوں میں خطے کی دیگر طاقتوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بھی کسی نہ کسی انداز میں اس حد تک استوار کر لیا ہے کہ کسی بیرونی جارحیت کے نتیجے میں سعودی عرب کی دفاعی ضروریات اب کسی مخصوص ملک کے مرہون منت نہیں رہیں گی۔
ان حالات میں پاکستان کے لئے بہت زیادہ چوائس موجود نہیں ہے کہ سعودی ولی عہد کے پاس اس وقت اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل و تطبیق کے لئے ایک سے زائد آپشنز موجود ہیں۔ معاشی طور پر بھی سعودی حکومت ماضی قریب کی نسبت بہتر حالت میں ہے اور امریکہ کے ساتھ تناؤ بھی کم ہونے جا رہا ہے۔ پاکستان کے شدید معاشی بحران میں کیش رقم کی فراہمی کے دو ہی آپشن ہیں جو آئی ایم ایف اور سعودی عرب کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ مگر سعودی کیش ہمیں مفت میں نہیں ملے گا۔ ماضی میں یمن کے تنازعے سے لے کر پی ٹی آئی کی حکومت تک جو تلخیاں دونوں ممالک کے درمیان پروان چڑھی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ پاکستان کی گرتی ہوئی معاشی صورتحال کو سہارا دینے کے لئے سعودی عرب کیا شرائط مقرر کرے گا اس کو سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔
عمران خان کی حکومت کا خاتمہ وہ پہلا مثبت پہلو ہے جس کو لے کر سعودی عرب پاکستان کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب فوری طور کسی قسم کا معاشی پیکج نہیں لا سکا اور یہی اس وقت سعودی عرب کی پالیسی کا عکاس ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعاون کے لئے کسی جلدی کی ضرورت کو محسوس نہیں کر رہے۔ خطے کی صورتحال نے انہیں کئی طرح کے آپشنز دے رکھے جو پاکستان کے لئے خوش آئند بات نہیں ہے۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کتنی چابکدستی سے عمران خان فیکٹر کو کنٹرول کرتی ہے تاکہ معاشی بحالی کے لئے جس پیکج کی ملک کو ضرورت ہے اس کے لئے سعودی عرب سے بات چیت کی جا سکے۔ پاکستان کی سڑکوں پر غلامی سے آزادی کے نعروں اور انقلاب کی بڑھکوں کے ساتھ سعودی عرب تو کیا کوئی کمرشل بینک بھی پاکستان کی مدد کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے پراجیکٹ عمران خان کو ٹھکانے لگانے کے بعد بھی سعودی عرب مالیاتی و معاشی پیکج اور امداد کے لئے اپنی دیگر شرائط پاکستان کے سامنے رکھے گا۔ ان میں ہندوستان کے ساتھ تناؤ میں کمی' افغانستان میں سعودی اثر و نفوذ کی بحالی و رسائی کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ تعلقات کی تفصیلات بھی شامل ہوں گی۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان کس طرح اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے طاقتور محمد بن سلمان کے ساتھ ان معاملات کو طے کرے گا۔