عمران خان، پرویز مشرف اور ضیاالحق میں سب سے بڑی قدرِ مشترک: آئین شکنی

عمران خان، پرویز مشرف اور ضیاالحق میں سب سے بڑی قدرِ مشترک: آئین شکنی
17 دسمبر 2019 وہ تاریخی دن ہے جب اسلام آباد کی ایک خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین سے سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنا دی تھی۔ یہ پاکستانی تاریخ میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سنایا جانے والا پہلا فیصلہ تھا۔

اب ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل کے اضافی نوٹ نے آرٹیکل 6 کو پھر سے زندہ کرتے ہوئے موضوع بحث بنا دیا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ ماضی میں کیا کبھی پاکستانی آئین کی اس سخت شق پر عملدرآمد کیا گیا ہے یا نہیں۔

ضیاالحق کا مارشل لا

پاکستان کا پہلا جمہوری اور متفقہ آئین 1973 میں پارلیمنٹ سے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاس ہوا۔ مگر محض 4 برس بعد جولائی 1977 میں سابق فوجی آمر ضیاالحق بھی ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو غیر آئینی طریقے سے گرا دیا۔ تاہم، عدالتوں کی مکمل پشت پناہی کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب پاکستان قومی اتحاد نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا کر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع کیا۔ اس صورتحال میں پاکستان کی سیاسی حالت ابتر ہو گئی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے پاکستان قومی اتحاد کے ساتھ کئی مرتبہ مذاکرات کیے، لیکن کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اسی سیاسی بدامنی کو جواز بنا کر فوجی آمر جنرل ضیاالحق نے 4 جولائی 1977 کو مارشل لا نافذ کر دیا۔ اپنے اس کارنامے کو انہوں نے ''آپریشن فیئر پلے'' کا نام دیا۔

جنرل ضیا نے اپنے مارشل لا کا جواز یہ پیش کیا کہ اس کا مقصد ملک میں 90 دن کے اندر اندر نئے الیکشن کروانا ہیں۔ لیکن انہوں نے قوم سے کیا یہ وعدہ بھی آئین کی طرح توڑنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کی۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک شہری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا جس میں ہائی کورٹ کی جانب سے انہیں سزائے موت سنائی گئی اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کر دی۔ اس سزا پر عملدرآمد 4 اپریل 1979 کو کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

پرویز مشرف کا مارشل لا

12 اکتوبر 1999 بھی ملکی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کو غیر آئینی طریقے سے ہٹا کر گیارہ سال تک ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کیا۔ انہوں نے منتخب جمہوری حکومت کو ختم کر کے نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے کا کیس بنوایا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے طویل عرصے تک غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قابض رہے۔ ان کے اس مارشل لا کو پہلے سپریم کورٹ اور بعد ازاں سترھویں ترمیم کے ذریعے پارلیمان کی توثیق بھی حاصل ہوئی۔ یاد رہے کہ انہوں نے بھی قوم سے وعدہ کیا تھا سترھوین آئینی ترمیم کے بدلے میں وہ 31 دسمبر 2004 کو فوج سے ریٹائر ہو کر محض صدرِ پاکستان کا عہدہ اپنے پاس رکھیں گے۔ لیکن اپنے پیشرو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے بھی یہ وعدہ وفا نہ کیا۔ تاہم، سترھوین ترمیم کے باعث اس آئین شکنی پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنانا ممکن نہ رہا کیونکہ اسے آئینی کور حاصل ہو چکا تھا۔

2007 کی ایمرجنسی کا نفاذ

اس کے بعد 2007 میں جب فوجی آمر پرویز مشرف نے اپنے غیر آئینی اقتدار کو مزید طول دینے کے لئے 3 نومبر کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تو انہوں نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے قریب 60 ججز کو برطرف کر کے نظر بند کیا اور تمام نجی چینلز کی نشریات کی بندش کر کے بنیادی انسانی حقوق معطل کر دیے۔ 14 نومبر 2007 کو انہوں نے پی سی او میں ترمیم کر کے ایمرجنسی کو ختم کرنے کا اختیار صدر مملکت کو منتقل کر دیا اور صدرِ مملکت وہ خود تھے۔ پھر قوم نے وہ نظارہ بھی دیکھا جب اپنی وردی کو کھال قرار دینے والے پرویز مشرف نے 28 نومبر 2007 کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ کر خود کو تیسری بار صدر منتخب کرایا لیکن انھیں اس مرتبہ ایمرجنسی اٹھانے کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ یہ ایمرجنسی 42 دن تک جاری رہی۔ جو آج تک پاکستانی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر درج ہے۔

آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مشرف کو سزائے موت کا حکم

2013 میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ چلایا۔ یہ فیصلہ 2007 میں ایمرجنسی کے نفاذ اور ججز کو نظر بند کرنے جیسے اقدامات کی وجہ سے کیا گیا۔ یہ مقدمہ 6 سال تک خصوصی عدالت میں زیر سماعت رہا۔ 17 دسمبر 2019 کو سنگین غداری کا مقدمہ سننے والی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو ملک کا آئین توڑنے کی پاداش میں سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا۔

تاہم، لاہور ہائی کورٹ کے ایک بنچ نے اس خصوصی عدالت کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا جس نے یہ فیصلہ سنایا تھا اور یوں یہ فیصلہ خود بخود ہی ختم ہو گیا۔ بعد ازاں اس بنچ کے سربراہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سپریم کورٹ میں ترقی پا گئے اور ان کے بنچ میں ساتھی جج جسٹس محمد امیر بھٹی لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے۔

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس، تفصیلی فیصلہ

یہ تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔ 86 صفحات پر مشتمل اس تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اپنی آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اس تفصیلی فیصلے میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اپنا تاریخی اضافی نوٹ تحریر کر کے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری، صدر مملکت عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان نے 3 اپریل کو آئین کے آرٹیکل 5 کو جواز بنا کر تحریکِ عدم اعتماد بنا ووٹنگ کے مسترد کی جو کہ آئین کے ساتھ فراڈ ہے۔ پارلیمنٹ فیصلہ کرے کہ آرٹیکل 6 کی کارروائی پر عمل کر کے مستقبل میں ایسی صورتحال کے لئے دروازہ کھلا چھوڑنا ہے یا اسے بند کرنا ہے۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل کے اس اضافی نوٹ نے ملک میں نئی قانونی وآئینی بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ کیا حکومت اس اضافی نوٹ کی بنیاد پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکتی ہے اور یہ کہ اس پر عملدرآمد کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے؟

مبشر زیدی کی نظر میں پی ٹی آئی قیادت کے خلاف آرٹیکل 6 کا معاملہ سیاسی انتقام ہے

سینئر صحافی مبشر علی زیدی نے عمران خان و دیگر کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی شروع کرنے کے فیصلے کو سیاسی انتقام قرار دیا تو ٹویٹر صارفین نے ان پر خوب تنقید کی اور کہا کہ کمال صحافت ہے زیدی صاحب آپ کی، سپریم کورٹ پر سیاسی انتقام کا الزام لگا رہے ہیں۔ ایک خاتون صارف نے کہا کہ زیدی صاحب آپ کی بہت عزت کرتی ہوں لیکن یہ سوال پوچھے بنا نہیں رہ سکتی کہ انتقام والی بات نیازی سے 4 سال تک کیوں نہیں کہی؟ ان کے دور میں ن لیگی رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ مریم نواز کو ڈیتھ سیل میں رکھا گیا، آپ چُپ رہے۔ رانا ثنااللہ کو چیونٹیوں سے بھری چٹائی دی آپ چپ رہے۔

نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر علی وارثی نے بھی مبشر زیدی کے موقف سے کھلا اختلاف کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ "اب سپریم کورٹ کہہ رہی ہے آئین سے انحراف ہوا۔ مبشر زیدی بھی یہ نہیں کہہ رہے کہ انحراف نہیں ہوا۔ بس نظریہ ضرورت کے تحت خاموشی سے بیٹھے رہیں، کچھ نہ کریں۔ پھر ہم ہی لوگ نظریہ ضرورت کے تحت کیے گئے عدالتی فیصلوں پر عدلیہ کو مطعون بھی کرتے ہیں۔"