گذشتہ دن اخبار بینی کے دوران ایک خبر پر نگاہ پڑی تو ناجانے کیوں خبر کی نزاکت نے ساری توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ خبر یہ تھی کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی نامزد ملزمہ جن کا تعلق سندھ کی ایک معروف سیاسی خاندان سے ہے ان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان کی مؤکلہ کے بینک اکاؤنٹس غیرمنجمد کیے جائیں کیونکہ ان کو اپنے بچوں کے سکول کی فیس ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اب اگر خبر پڑھنے کے بعد آپ نے نیب کی بہترین کارگردگی پرعش عش کرنا شروع کر دیا ہے تو اس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ آپ کا دل ناصرف ایک مخصوص سیاسی جماعت کے لئے دھڑکتا ہے بلکہ آپ احمقوں کی جنت میں بھی رہ رہے ہیں۔ ویسے تو اس کیس میں ہماری محترم عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے اور امید ہے کہ ادی کی اولاد کے تعلیمی سفر کا تسلسل برقرار رکھنے والی ایسی عاجزانہ استدعا پر بال بچوں والے معزز جج صاحب کا ضرور دل پسیج ہو گیا ہو گا اور جیت درخواست گزار کی ہو گی۔ لیکن پھر بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے جائیں کہ اللہ تعالی نیب والے کو بھی ہدایت نصیب کر دے۔
اب اس خبر کی خبریت پر دوبارہ غور کریں اگر بہت سے لوگوں کے طرح آپ کی توجہ بھی ادی کی مالی مشکلات پر مرکوز ہوئی ہے تو مبارک ہو آپ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی نظریں ہمیشہ دوسروں کی جیبوں میں ہوتی ہیں۔ آپ جیسے لوگوں میں ایک اچھا سیاستدان بننے کے جراثیم پائے جاتے ہیں، تو وقت ضائع کئے بغیر اپنے نئے کیرئیر کی طرف غور کریں۔ اور جو لوگ اس خبر میں ملک میں پائی جانے والی تعلیم کی دگرگوں حالت کی نشاندہی کرتے ہوئے تقریباً 20 ملین بچوں میں مزید دو ایسے بچے شامل کرانے پر تلے ہیں جن کا تعلیمی مستقبل داؤ پر ہے تو آپ لوگوں سے یہ عرض ہے کہ آپ کے پاس ترس کھانے والا دل تو ہے لیکن سوچنے والا دماغ اور دیکھنے والی آنکھیں اپنی اصلی حالت میں برقرار نہیں رہیں۔
واضح رہے کہ ان بچوں کی تعلیمی معاملات میں حائل مشکلات ان کو کامیاب سیاستدان بننے سے نہیں روک سکتیں۔ لیکن مستقبل میں پوری قوم اس وقت شرمندہ ہو سکتی ہے جب ہمارے نظام پر اس قسم کے سوال اٹھائے جائیں گے کہ ان پڑھ حکمران ملک و قوم کا اس طریقے سے بیڑہ غرق کیوں نہیں کرسکتے جس طریقے سے غیرملکی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصل حکمران کرتے ہیں۔