کورونا وائرس سے جنگ: سندھ حکومت وفاقی اور پنجاب حکومتوں سے کہیں زیادہ متحرک ہے

کورونا وائرس سے جنگ: سندھ حکومت وفاقی اور پنجاب حکومتوں سے کہیں زیادہ متحرک ہے
بالآخر حکومتِ پاکستان کو بھی خیال آ ہی گیا کہ کورونا وائرس نامی ایک عالمی وبا دنیا میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور بڑے بڑے ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک اس کی زد میں ہیں اور اپنی عوام کو ریلیف دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ عمران خان حکومت کی نااہلی کا تذکرہ زبان زدِ عام تو ہے ہی۔ صحتِ عامہ کے اتنے سنگین مسئلے کے اوپر غفلت اور کسی بھی قومی ایکشن پلان کی کمی نے پاکستان کے باخبر اور سنجیدہ حلقوں کو حیران و پریشان کر دیا۔

شاید اسی دباؤ کی وجہ سے جمعے کو ہونے والی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں چند اہم فیصلے لیے گئے جن میں مغربی بارڈرز کرنا سرفہرست ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایران میں ایک خطرناک صورتحال کا سب کو علم تھا تو اس وقت اس بارڈر کو بند کیوں نہیں کیا گیا۔ اور جب چین میں یہ وبا اپنے عروج پر پہنچی تو اس وقت چینی شہریوں کی آمد و رفت کو کیوں نہیں روکا گیا؟

اب ہم بچاؤ اور روک تھام کے مرحلے سے آگے گزر گئے ہیں کیونکہ تقریباً ایک ماہ کی تاخیر ہو چکی ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکت کے درمیان بھی ایک مہینے کا فاصلہ ہوتا ہے۔ یوں تو پاکستان کی سبھی حکومتیں عوام کی فلاح کے معاملے کو پسِ پشت ہی ڈالتی ہیں لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے تو ظلم کی انتہا کر دی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ سندھ حکومت پچھلے چند ہفتوں میں پنجاب اور وفاق کی حکومتوں سے زیادہ متحرک دکھائی دی اور یہ وہی سندھ حکومت ہے جس کو عمران خان صاحب، ان کے حواری اور پاکستان کا میڈیا دن رات کوستا رہتا ہے۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے میڈیا نے بھی اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو ان پہ لازم تھا۔



اب اس امر میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں کہ کورونا وائرس پاکستان میں آ چکا ہے اور اس کا پھیلاؤ دیگر ممالک کی طرح خاصا تیز ہوگا اور شاید پاکستان میں یہ پھیلاؤ اور بھی تیز ہوگا کیونکہ ہماری ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے اور اس کے پاس تو عام حالات میں بھی صحت کی سہولیات میسر نہیں۔ لہٰذا اس وقت پاکستان کے عوام کو بہت ساری احتیاطی تدابیر اختیار کرنا پڑیں گی۔

سب سے پہلے تو دنیا بھر کی طرح social distancing یعنی لوگوں کا میل جول کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت شادی کی تقریبات یا دیگر ایسی رسومات کو فی الفور مؤخر کرنا ہوگا جن سے اس وبا کے پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ یاد رہے کہ یہ وبا چھ فٹ کے فاصلے سے کم میل جول کے ذریعے منتقل ہو جاتی ہے اور کئی ہفتے اس کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔

رسومات کو مؤخر کرنے کے بعد گھروں میں، دفاتر میں اور مذہبی مقامات سمیت ہر وہ جگہ جہاں لوگوں کی آمد و رفت ہو، وہاں صفائی کا خصوصی بندوبست لازمی ہے جس میں اپنے ہاتھوں کو بار بار صابن کے ساتھ 20 سیکنڈ تک دھونا لازمی ہے۔

تیسرا یہ کہ مذہبی مقامات پر بھی احتیاط کی سخت ضرورت ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ مساجد اور مزارات پر جانا کچھ عرصے کے لئے ترک کر دیں۔ سعودی عرب اور ایران نے اس معاملے پر کئی اقدامات اٹھائے ہیں اور پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کو قطعاً نہیں گھبرانا چاہیے کیونکہ انسانی جان کی حرمت عبادات اور مذہبی مقامات سے کہیں افضل ہے۔

نمبر 4 یہ کہ پاکستان میں روزانہ لاکھوں لوگ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہیں جو کہ بہت سے معاملات میں ناگزیر ہوتا ہے۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ غیر ضروری سفر کو مؤخر یا ترک کر دیا جائے۔ یاد رہے کہ جب یہ وبا تیزی سے پھیلے گی تو اسپتالوں اور لیبارٹریز میں لمبی قطاریں اور بھی خطرناک واقع ہوں گی۔ اس لئے اگر عوام خود سے تدابیر اختیار کرنا شروع کریں گے تو امید ہے کہ وہ اس میڈیکل ایمرجنسے سی بچ جائیں گے۔

یہاں ہر شہری کو چاہیے کہ وہ اپنی ذاتی اشیا، مثلاً فون، کمپیوٹر، قلم تک کو بھی بار بار صاف کرتے رہیں اور دوسروں کے ساتھ بانٹنے سے گریز کریں۔



اگر کسی بھی طرح نزلہ، زکام یا بخار کی علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر اپنے آپ کو دیگر لوگوں سے الگ کر لیں اور کچھ دن کا وقفہ دیں کہ علامات کم ہوتی ہیں یا ان کی شدت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

آخر میں یہ ضروری ہے کہ گھر میں موجود بزرگوں کی خصوصی دیکھ بھال کی جائے اور ان کو احتیاط کا مشورہ لازمی دیں۔ کیونکہ کورونا وائرس کا سب سے زیادہ اثر ساٹھ سال اور اس سے اوپر مردوں اور عورتوں پر ہو رہا ہے اور سب سے زیادہ مرنے والے لوگوں کی تعداد بھی اسی age group سے ہے۔

بچوں کے سکول بند کیے جا چکے ہیں۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ انہیں عوامی مقامات پر جانے سے روکیں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ وہ نہ صرف مستقل اپنے ہاتھ دھوتے رہیں بلکہ انہیں گھروں میں مصروف رکھا جائے۔