سندھ حکومت نے اپنے صوبہ میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو وزیراعظم صاحب نے اس کی مخالفت کی جس پر سابقہ ڈپٹی سپیکر اور حالیہ ممبر سندھ اسمبلی محترمہ شہلہ رضا صاحبہ نے کہا کہ وزیراعظم کو بات دیر سے سمجھ آتی ہے اور مرکز بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کرے گا لیکن ایک ہفتہ بعد، پرسوں وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں لاک ڈاؤن کا آپشن پھر مسترد کر دیا لیکن رات گئے یہ اعلان ڈی جی آئی ایس پی آر نے کر دیا۔
اسی طرح سندھ حکومت نے بہت پہلے تعلیمی اداروں کو 31 مئی تک بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا جبکہ مرکزی حکومت نے آج اعلان کیا ہے۔ فیصلہ سازی کا حوالے سے مرکزی حکومت اگر شدید تنقید کے زد میں ہے تو بے جا بھی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک ہفتہ قبل کہا کہ کرونا وائرس ایک وبا ہے جس سے کوئی بھی حکومت تنہا نہیں نمٹ سکتی لہذا آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے تاکہ اس عفریت سے نمٹنے کا کوئی اجتماعی حل نکالا جا سکے۔ قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بھی لندن سے واپسی پر انہی خیالات کا اظہار کیا۔ بعد از خرابی بسیار اسپیکر قومی اسمبلی نے آن لائن اجلاس بلایا لیکن وہ بھی وزیراعظم کی انا کی نذر ہو گیا۔
اجلاس شروع ہوا تو وزیراعظم اپنی تقریر کرنے کے بعد چلے گئے جس پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور مسلم لیگ ن کے صدر نے احتجاج کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ پورا ملک کرونا کی وبا کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہے اس رویہ سے وزیراعظم کی سنجیدگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں جبکہ کرونا کے مریضوں کی تعداد میں وقت کیساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے مرکزی حکومت کو چاہیے کہ اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرے تاکہ ہر جماعت اس میں اپنا حصہ ڈال سکے اور یوں پوری قوم یکسوئی سے جنگی بنیادوں پر میدان عمل میں اپنی توانائیاں صرف کر سکے ایسا نہ ہو کہ آپس کے اختلافات میں ہم کوئی بڑا نقصان کر بیٹھیں۔
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہِ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے