اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنچایت کے حکم پر گینگ ریپ کا شکار ہونے والی مختاراں مائی کے مقدمے میں ملزموں کی بریت کی درخواست غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
ملزموں کے وکلا نے دوران سماعت التوا کی درخواست دائر کی تھی جس پر قائم مقام چیف جسٹس گلزار احمد نے مقدمہ کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ نے دو مارچ 2019 کو مختاراں مائی کی پنچایت کے حکم پر زیادتی کے معاملے پر نظرثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر کی تھی اور بعدزاں چھ مارچ کو ملزموں کو وکیل کرنے کی مہلت دے دی گئی تھی۔
یاد رہے کہ جون 2002 میں ایک مقامی پنچایت کے حکم پر مختاراں مائی کو ان کے بھائی کے جرم کی ناکردہ سزا سناتے ہوئے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کا حکم دیا گیا۔ وہ خطاوار تھی جب کہ درحقیقت اس کے چھوٹے بھائی کے مخالف قبیلے کی خاتون سے غیرازدواجی تعلقات تھے۔
مختاراں مائی نے 14 افراد پر اجتماعی زیادتی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا، اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسی برس اگست میں چھ ملزموں کو سزائے موت سنا دی جن میں سے چار اجتماعی زیادتی اور دو پنچایت کا حصہ تھے جب کہ دیگر آٹھ افراد کو بری کر دیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے چھ میں سے پانچ ملزموں کو بری کر دیا تھا جب کہ ملزم عبدالخالق کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی تھی۔
پانچوں ملزموں کی بریت کے خلاف مختاراں مائی نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپریل 2011 میں تمام اپیلیں مسترد کر دی تھیں۔
مختاراں مائی نے اسی سال مئی میں سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر کر دی جس پر آٹھ سال بعد رواں برس چھ مارچ کو سماعت کا آغاز ہوا۔
مختاراں مائی نے اپنی نظرثانی درخواست میں موَقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا یہ فیصلہ انصاف کی بہت بڑی ناکامی تھی۔