اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی اپیلوں پر سماعت سپریم کورٹ کے احکامات آنے تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور الیکشن کمیشن کے وکلاء پیش ہوئے۔
خواجہ حارث نے چار کیسز عدالت کے سامنے ہونے کا بتایا تو چیف جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا آرڈر آ جائے تو دیکھ لیتے ہیں۔
خواجہ حارث نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کو کیس سننے کی ہدایت کی ہے۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ ان سارے کیسز کو اکٹھا ہی سن لیتے ہیں۔ بتائیں کہ سپریم کورٹ کا آرڈر کیا ہوا؟ کیا تمام پٹیشنز آج کیلئے مقرر کی جائیں؟
اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے دائرہ اختیار اور ٹرانسفر کی درخواستیں سننے کا کہا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمپلینٹ کی بنیاد پر پہلے سائبر کرائم ونگ دیکھے گا۔ اس کے بعد تحقیقات ہوگی۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ کل تک میرے پاس ایسا کچھ نہیں آیا۔ فیس بک پوسٹ پر ٹرائل کورٹ کے جج کا کیا موقف ہے؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جج صاحب نے کہا فیس بک اکاؤنٹ میرا ہے لیکن پوسٹس میری نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بھی ایف آئی اے کو لکھا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ میں تحریری درخواست دیدی ہے تاہم جج صاحب نے اپنے تحریری حکمنامہ میں اس بات کا ذکر نہیں کیا۔
بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ میں جو معاملہ ہوا وہ وہیں پر ختم ہو چکا صلح صفائی ہو گئی تھی جب کہ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے ٹرائل جج سے معذرت بھی کی تھی۔
اس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ کل تک میرے پاس ایسا کچھ نہیں آیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا آرڈر آج آنے کا امکان ہے؟ ڈائریکشنز دی گئی ہوں تو ہائیکورٹ کو بھی آفیشلی آرڈر بھیجا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تمام کیسز یکجا کر کے سننے کا کہہ دیا پھر تو ٹھیک ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے نہیں کہا تو پھر میں یکجا کرنے کا آرڈر کر دوں گا۔
خواجہ حارث نے ٹرائل روکنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کی غیر موجودگی میں گواہوں کے بیانات پر جرح ہوئی۔ آج ناقابل ضمانت وارنٹ نکالنے کا بھی کہا ہوا ہے۔ اس معاملے کو بھی دیکھ لیں اور کچھ آبزرو کر دیں۔
اس کے بعد عدالت نے سپریم کورٹ کے آرڈر کا انتظار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
دوسری جانب ڈسٹرکٹ اینڈسیشن کورٹ اسلام آباد میں جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں توشہ خانہ کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ فوجداری کیس میں ملزم کی حاضری لازم ہوتی ہے۔ اگر عدالت مطمئن ہو تو صرف تب حاضری سے استثنیٰ دیا جا سکتا ہے ۔
امجد پرویز نے کہا کہ کتنی بار چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالت حاضری کو ترجیح دی؟ 31 جولائی کو چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالتوں میں پیش ہونا ہے ۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے آج کی درخواست میں نہیں لکھا کہ سیشن عدالت پیش ہوں گے۔ ایف ایٹ میں سکیورٹی خدشات تھے لیکن اب نئی کچہری میں بھی سکیورٹی خدشات ہو گئے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے ہائیکورٹ میں ویڈیو لنک سے حاضری پر درخواست دائر کی تھی۔ ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ 342کا بیان عدالت میں ذاتی حیثیت میں ہی لیا جائے گا۔ درخواست میں کہیں نہیں لکھا چیئرمین پی ٹی آئی پیر کو عدالت پیش ہوں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس کا ٹرائل روکنے کی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
دوران سماعت جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ٹرائل کورٹ کے معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ توشہ خانہ سے منسلک زیرالتوا درخواستوں کو سنے ۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ توشہ خانہ کا ٹرائل تو حتمی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے.
اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا میرے خیال میں ہمیں اس وقت اس معاملے میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے. ہائیکورٹ سے کہیں گے کہ وہ آپ کی زیرالتوا درخواستوں کو اکٹھا سن لے۔ اختیار سماعت بنیادی نکتہ ہے اس پر پہلے فیصلہ ہونا چاہیے۔ جو بھی کہنا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے کہیں۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ درخواست گزار کی جانب سے توشہ خانہ ٹرائل کورٹ کے جج پر اعتراض کی درخواست ہائیکورٹ میں زیر التواء ہے اور ہائیکورٹ کے مقدمہ ٹرائل کورٹ میں منتقل کرنے کے فیصلے کو بھی چیلنج کررکھا ہے۔ لہذا اسلام آباد ہائی کورٹ دونوں درخواستوں کو سن کر فیصلہ کرے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عدالت سے استدعا کی کہ ہمیں ایک دن کا اسٹے آرڈر جاری کریں۔جس پرعدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کی کسی کارروائی پر اسٹے آرڈر نہیں دے سکتے۔ بعد ازاں عدالت نے درخواست نمٹا دی۔