نواز شریف بنیادی طور پر شریف سیاستدان ہیں۔ سیاست بھی کاروبار کے طریقے سے نفع و نقصان کی بنیاد پر کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ دبنگ طریقے سے تب بولتے ہیں جب انہیں کہا جاتا ہے۔ جب کہا جاتا ہے بولنا منع ہے تو حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ بولنا ضروری ہو تو دھیمی آواز میں بولتے ہیں۔ نواز شریف کی پوری سیاسی تاریخ ذاتی مفادات پر مبنی ہے۔ بطور حکمران ملکی ترقی کے منصوبے ہوں یا عوام کو ریلف دینے کے پروگرام ہوں، ذاتی مفادات مقدم رکھتے ہوئے مرتب کیے جاتے رہے ہیں۔ بصورت دیگر رفقا، عزیز و اقارب کو نوازنے کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔
نواز شریف نے اپنی ہی سیاسی فلاسفی کو مقدم رکھا اور فروغ دیا۔ ضیا آمریت کے خاتمہ کے بعد نوازازم نے تیزی سے ترقی کی اور نواز شریف ترقی کے زینے چڑھتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کا مارشل لاء نوازشریف کا کچھ بگاڑنے میں ناکام رہا۔ پرویزی دور ختم ہوتے ہی نواز شریف کی سیاست پہلے سے زیادہ طاقتور طریقے سے سامنے آئی اور نواز شریف پاکستان کے اکلوتے بڑے لیڈر بن کر ابھرے۔
کھیل یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ باقی کہانی سے قارئین واقف ہیں۔ پانامہ، اقامہ، جیل اور پھر جیل کی بجائے یہاں نواز شریف کی قیادت زیر بحث لانے کی کوشش ہے کہ پاکستان کے عوام کیا نوازشریف کو پھر وزیر اعظم یا قائد کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں؟
نواز شریف کی عوامی مقبولیت برقرار ہے۔ نواز حکومت کی وہ کون سی عوامی پالیساں ہیں، جن سے عوام کو براہ راست ریلیف حاصل تھا اور نئی حکومت نواز پالیساں جاری رکھنے میں ناکام رہی ہے؟ اگر ایسا کچھ بھی نہیں تو پھر اپنی پارٹی کے لوگ جمع کرنے کو عوامی مقبولیت کہنا محض خود فریبی ہے۔ لکھنے والے جو اس کو عوامی مقبولیت کہہ رہے ہیں، حقیقت میں نمک حلال کرنے کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ بعض لکھنے والے بھی نواز ازم کا شکار ہیں۔ درباری پوری حیاتی قصیدہ گوئی میں گزار دیتے ہیں۔ خود کو غیر جانبدار صحافی یا لکھاری سمجھتے ہیں۔
نواز شریف سمیت اس قبیل کے لوگ خاص عہد کی پیداور ہیں۔ جس طرح قوم یوتھ اپنا عہد زریں رکھتی ہے۔ نواز شریف مصنوعی لیڈر ہیں اور مصنوعی لیڈر تھے۔ نوازشریف کا عہد تمام ہوا ہے۔ موجودہ عہد نئے تراش کردہ لیڈر عمران خان کا ہے۔ کوئی لاکھ اختلاف کرے، آج کا لیڈر عمران خان ہے، نواز شریف نہیں ہے۔ نوازشریف نے اپنا عہد پورا کر لیا ہے۔
اگر کسی کو گمان ہے کہ نوازشریف پنجاب یا پنجابی عوام میں ہمدری حاصل کر رہا ہے تو وہ بھی غلطی پر ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔ پنجابی قوم پرستی ابھرے گی۔ پنجاب اب لاوارث نہیں ہے۔ پنجابی مزاحمت کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔
چونترہ سے ہمارے دانشوردوست عرفان راجہ بڑے پرامید تھے کہ پنجاب اٹھے گا۔ نوازشریف پنجاب کے بابا گرونانک بن کر ابھریں گے اور انقلابی لیڈر بن جائیں گے۔ دوسرا بڑا گمان یہ تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مریم نواز شریف ہلچل مچا دے گی۔ بے نظیر بھٹو وہ کردار ادا نہیں کرسکی تھی جو مریم بی بی کرے گی۔ فوجی جنتا پر خوف طاری رہے گا۔
پنجاب سمیت پاکستان بھر کی عوام نے دیکھا کہ میاں نواز شریف بول نہیں پائے۔ میاں شہباز شریف ویسے ہی ڈیل کے چکر سے باہر نہیں نکلے۔ بلکہ میاں نواز شریف اور مریم بی بی کو بھی سمجھاتے رہے ہیں کہ جو بول رہے ہو، یہ بھی بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مریم نواز بھی کچھ بولنے اور کرنے سے قاصر رہی ہے۔ کیا کرتی مریم بی بی؟ وہ کون سی کسی انقلابی لیڈر کی بیٹی ہے؟ طالب علم لیڈر رہی ہے؟ میاں نواز شریف کی بیٹی ہے۔ باپ جو کرتے رہے، بیٹی نے وہی سیکھا ہے۔ مزاحمت کی سیاست اسے کیا خبر کیا ہوتی ہے؟
شریف خاندان ایک کاروباری فمیلی ہے۔ ضیا دور میں کچھ من چلے جرنیل بیچاروں کو سیاست میں گھسیٹ لائے تھے۔ تب سے شریف خاندان نے سیاست میں رہ کر کاروبار کیا ہے۔ آج اللہ کے فضل وکرم سے کاروبار برطانیہ سمیت کئی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ ترکی کے مرد آہن طیب اردگان، بھارتی وزیر اعظم مودی، سعودی شہزادے اور بل کلنٹن سمیت دنیا کے بڑے بڑے لوگوں سے ذاتی مراسم بن چکے ہیں۔ کس چیز کی کمی رہ گئی ہے؟ سیاست سے عزت، دولت، شہرت سب کچھ کمایا ہے۔
پاکستانی عوام میں بھی بھلے لوگ ہیں۔ جنرل پرویز مشرف سے ملک بدری کا معاہدہ کر کے جو بیرون ممالک کاروبار بڑھاتے رہے، آج ان میں مزاحمتی سیاست کی امید کر رہے ہیں۔ اللہ کے نیک بندو، یہ وہی حمزہ شہباز، مریم بی بی، نواز شریف اور شہباز شریف ہے۔ شریف خاندان میں بے نظیر بھٹو یا بلاول پیدا نہیں ہوئے۔ شاہ نواز اور مرتضیٰ بھی نہیں ہیں۔ سلمان شہباز، حسن نواز اور حسین نواز ہیں۔ جنہیں کاروبار سے ہی فرصت نہیں ہے۔