عالمی سطح پر سیاستدانوں کی غریب ملکوں کے قرض منسوخ کرانے کی تحریک: 'قرضے منسوخ نہ ہوئے تو نتائج بھیانک ہوں گے'

عالمی سطح پر سیاستدانوں کی غریب ملکوں کے قرض منسوخ کرانے کی تحریک: 'قرضے منسوخ نہ ہوئے تو نتائج بھیانک ہوں گے'
کرونا وائرس نے ویسے تو ایک فرد سے لے کر اجتماعی طور پر تمام دنیا کو بطورایک سماج ہلا کر رکھا دیا ہے لیکن بظاہر مضبوط بنیادوں پر استوار عالمی معاشی و سیاسی نظام میں وہ دراڑیں ڈالی ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ ناگہانی آفت نئی تحریکوں کو جنم دے رہی ہے اور مختلف ملکوں کے 300 سے زائد سیاستدانوں پر مشتمل ایک بین الاقوامی گروپ کی جانب سے دنیا کے غریب ممالک کے قرضے معاف کروانے کے لئے تحریک شروع کی گئی ہے۔

اس گروپ کی سربراہی امریکا کی حالیہ صدارتی دوڑ کے سابق امیدوار سینیٹر برنی سینڈرز اور ایوان نمائندگان کی رکن الہان عمر کر رہی ہیں۔ اس گروپ نے ایک خط کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے جن میں آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور دیگر شامل ہیں وہ ان 70 سے زائد ممالک کا مکمل قرضہ معاف کردیں جو انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن کے رکن ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ کرونا کی عالمی وبا کی آفت ہماری زندگیوں میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔

یہ ایک غیر معمولی لمحہ ہے جو غیر معمولی اقدامات کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ ممالک انتہائی غریب ہیں اور ان کے وسائل کا بڑا حصہ ان غیر متوازن قرضوں کی ادائیگیوں میں صرف ہو جاتا ہے۔ برنی سینڈرز کا کہنا تھا کہ ہم کسی صورت بھی ان ملکوں کو خوارک، دوائی حفاظتی کٹس اور طبی آلات کی خریداری سے محروم نہیں کر سکتے۔

الہان عمر کا کہنا تھا امریکا کے پاس بطور عالمی اداروں کے سب سے بڑے ڈونر کے یہ موقع ہے کہ وہ آگے بڑھے اور ان غریب قوموں پر چڑھے ہلاکت خیز قرضے کو ختم کرنے میں پہل کرے۔ جی 20 کے تمام رہنما غریب ممالک کا قرض منسوخ کردیں۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ یہ موقع ہے کہ ہم ایک عالمی سماج بن کر عمل کریں اور اس کا مطلب ہے کہ ہم ان کا خیال رکھیں جو سب سے کمزور ہیں۔ یہ خط امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سمیت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سربراہان کو لکھا گیا ہے۔ خط فرانس، سپین، اٹلی، برازیل، امریکا اور دیگر کئی ممالک کے 300 سے زائد سیاسی رہنماوں کی جانب سے لکھا گیا ہے۔