یہ سال 2002 کا واقعہ ہے جب ابھی ابھی گل رُخ نے پیٹ کے بل چلنا ہی سیکھا تھا مگر وہ گھر والوں کے سر کا تاج تھی۔ کیونکہ اُن کے والدین کا ایک ہی ارمان تھا کہ اُن کے گھر بیٹی پیدا ہوجائے کیونکہ گل رُخ کے چار بڑے بھائی تھے۔ گل رُخ کی پیدائش ہی کے ساتھ گھر میں خوشی کا ایک نیا سماں تھا۔ ہر کوئی اُس کے لئے کپڑے اور کھلونے لاتا تھا اور اپنے پیار کا اظہار کرتا تھا۔
وقت گزرتا گیا اور گل رخ پورے تین سال کی ہوگئی۔ گل رُخ کی پیدائش ایک ایسے وقت میں ہوئی تھی جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد امریکہ اور اُن کے اتحادی افغانستان پر چڑھائی کر چکے تھے اور تخت کابل چھیننے کے بعد نیٹو افواج اور طالبان کے درمیان گمسان کی لڑائی شروع ہوچکی تھی۔ جن کا نشانہ زیادہ تر افغانستان کے عوام تھے جو اس اگ میں لقمہ اجل بن رہے تھے۔
حملے کے بعد افغان مہاجرین زیادہ تر گل رُخ کے صوبے خیبر پختون خوا آگئے۔ جہاں طالبان کے قصیدے پڑھائے جاتے تھے کہ طالبان نے انصاف کا ایسا نظام قائم کیا تھا جہاں ہر طرف انصاف کا بول بالا تھا مگر یہ کہانیاں صرف مردوں کے زبان پر ہوتی تھیں۔ خواتین کی کہانیاں الگ تھیں اور اُن میں زیادہ یہی شکایت کرتیں کہ طالبان کے آنے کے بعد ان کی زندگیاں ایک پنجرے میں بند پرندے جیسی ہوگئی جہاں خواہشات کا اظہار کفر تھا۔
گل رُخ کے والد کا تعلق بھی ایک سخت گیر مذہبی جماعت سے تھا جن کا طالبان سے بہت لگاوٗتھا اور اُن کی رومانوی جنگی معرکے سننے کے لئے وہ دیر تک ایک کھلے میدان میں اٖفغان دوستوں کے پاس بیٹھتے تھے۔ نائن الیون کے بعد اگر ایک طرف امریکہ کے خلاف نفرت بڑھ گئی تو دوسری جانب پولیو کے خلاف بھی لوگوں میں نفرت بڑھ گئی تھی۔ طرح طرح کے مفروضے بننا شروع ہوئے۔
کوئی کہتا یہ خنزیر کے پیشاب سے بنتا ہے کوئی کہتا تھا کہ یہ مسلمان کی نسل کم کرنے کے لئے کفار نے ویکسین بنائی ہے۔ اور یوں لوگوں نے نہ صرف اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا بلکہ پولیو کے رضاکاروں کے ساتھ بھی تلخی کے واقعات بڑھ گئے۔
گل رُخ کی پرورش ایک ایسی مذہبی جماعت کے ماحول سے متاثر گھر میں ہوئی جہاں امریکہ کے خلاف نفرت اولین ایمان کے درجوں میں شمار ہوتی تھی۔ اور گل رُخ کے والد بھی اُس پراپیگنڈے کا شکار ہوئے اور یوں گھر میں اعلان کیا کہ کوئی بھی اپنے بچوں کو پولیوں کے قطرے نہیں پلائے گا۔ مگر کچھ لوگوں نے ان کے بات سے اتفاق نہیں کیا اور اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلادیئے تاہم گل رُخ کو قطرے نہیں پلائے گئے۔
کچھ دن بعد ہی وہ سخت بخار میں مبتلا ہوئی تو مقامی ڈاکٹروں سے بخار کی ادویات لائی گئیں کہ بخار کم ہوجائے مگر ان دوائیوں نے ان کی بخار پر کوئی اثر نہیں کیا۔ اور اُس کا ایک پاوٗں تیز بخار میں ٹیڑھی ہوگیا جس کے بعد گل رُخ کو پشاور کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا مگر تب بہت دیر ہوچکی تھی۔ ابتدائی معائنے کے بعد ڈاکٹر نے اُن کے خاندان پر غم کا پہاڑ گرادیا اور بتایا کہ آپکی بچی پولیو وائرس کا شکار ہوچکی ہے اور اب پوری زندگی معذور رہیگی۔ ان کے والد نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے رو کر منت کی کہ میرے بچی کو معذور ہونے سے بچاوٗ چاہے خرچہ جتنا بھی ہو مگر ڈاکٹر نے صاف انکار کیا اور واپسی پر گل رُخ کے ابو نے ان کی امی کو اس بات پر تسلی دی کہ بس اس میں اللہ کی رضا شامل ہوگی اب ہم کیا کرسکتے ہیں۔
گل رخ ابھی بیس سال کی ہوچکی ہے مگر وہ مکمل طور پر پاؤں سے معذور ہے اور اُس کے والدین کو ایک غم ہی کھائے جا رہا ہے کہ گل رُخ کی ہم عمروں کی تو شادیاں ہوچکی ہیں پتہ نہیں اس بدنصیب کے دن کب بدلینگے۔ اور اپنے والد کی مذہبی جہالت کی سزا کاٹتی گل رخ شاید اب کوئی سوال خود سے بھی نہیں کرتی۔