صحافی اسد علی طور نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پنجاب میں انتخابات نہ کرانے پر سپریم کورٹ وزیراعظم شہباز شریف کو توہین عدالت کا مرتکب نہیں ٹھہرائے گی۔
اپنے یوٹیوب چینل پر ایک حالیہ وی لاگ میں اسد علی طور نے کہا کہ اگرچہ حکومت نے کوئی درخواست دائر نہیں کی ہے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سپریم کورٹ سے 4 اپریل کو پنجاب میں مئی میں انتخابات کے انعقاد کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی درخواست دائر کی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کی طرف سے انتخابات کے لیے دی گئی 'ڈیڈلائن' 14 مئی بروز اتوار ختم ہو گئی۔
صحافی نے کہا کہ پہلے درخواست سنی جائے گیبعد میں توہین عدالت کے معاملے پر بات ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف دو وجوہات کی بنا پر محفوظ ہیں۔ پہلا یہ کہ وزیراعظم شہباز شریف نے 21 ارب روپے کے اجراء کا معاملہ کابینہ کے سامنے رکھ کر عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد کیالیکن پارلیمنٹ نے اس اقدام کو مسترد کردیا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی "عوام کی مرضی" کی نمائندہ ہے اور سپریم کورٹ قومی اسمبلی کو اس کے لیے قانون بنانے اور اس کے مطالبے پر کوئی مخصوص بل پاس کرنے کی ہدایت نہیں کر سکتی۔ اس لیے آج کی سماعت میں وزیر اعظم شہباز پر توہین عدالت کا الزام نہیں لگایا جائے گا۔
اگر چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر وزیر اعظم شہباز شریف کو توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں تو حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دے گی جبکہ حکومت کا موقف ہو گا کہ یہ تینوں جج اقلیتی جج ہیں اور ان کا فیصلہ، فیصلہ نہیں بلکہ اختلافی نوٹ ہے جس کی کوئی قانونی کوئی حیثیت نہیں۔
صحافی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس بندیال اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے فیصلے پر عمل نہیں ہو گا۔ اس بات کا اعتراف انہوں نے خود لاہور میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ چیف جسٹس اس بات سے آگاہ ہیں کہ پنجاب میں انتخابات سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو گا تاہم ان کا فیصلہ بطور ریفرنس موجود رہے گا۔