قانون، انصاف، آئین کی بالا دستی، جمہوری قدروں اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے کسی بھی ملک میں سیاسی جماعتوں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ جمہوریت کے استحکام اور عوام میں سیاسی شعور اور سیاسی تربیت کے لیے سیاسی جماعتوں کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
دیگر جمہوری ممالک کی طرح وطن عزیز پاکستان میں بھی سیاسی جماعتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آئینی و قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے نا صرف اپنی جمہوری جدوجہد کو جاری رکھیں بلکہ جمہوریت کے فروغ نیز آئین و قانون کی بالا دستی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے قیام کی جدوجہد پُرامن، آئینی و قانونی و جمہوری طریقے سے سر انجام دی تھی۔ پاکستان ایک پرامن آئینی جمہوری جدوجہد کے ذریعے معرضِ وجود میں آیا۔
قیام پاکستان کے بعد بھی متعدد تقاریر میں جناح نے پاکستان کے مستقبل کو صرف اور صرف جمہوریت سے ہی وابستہ قرار دیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ہمیشہ سے ہی قانون و انصاف اور پُرامن جمہوری قدروں پر یقین رکھنے والی عظیم شخصیت تھے۔ آپ نے پاکستان کا مقدمہ پرامن آئینی جدوجہد کے ذریعے ہی جیتا تھا۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر پاک و ہند کے اُن چند عظیم سیاست دانوں میں شامل تھے جو اپنی پرامن سیاسی سرگرمیوں کی بدولت کبھی بھی پابند سلاسل نہ ہوئے بلکہ اپنی آئینی، قانونی اور جمہوری اور پُرامن جدوجہد کی بنا پر دُنیا کی سب سے بڑی 'اسلامی جمہوری ریاست' پاکستان کی داغ بیل ڈالی۔
ہندوستانی سیاست اس بات کی گواہ ہے کہ انڈین کانگریس نے کئی دفعہ ہندوستان کے طول و عرض میں پر تشدد احتجاج اور مظاہرے کیے اور برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں شدید نفرت اور اشتعال انگیزی پھیلائی نیز مذہب کے کارڈ کے استعمال کی بھی داغ بیل ڈالی۔ لیکن اس کے برعکس آل انڈیا مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں صرف اور صرف آئینی، جمہوری اور پُرامن جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چند عشروں سے وطن عزیز پاکستان میں بھی اب چند سیاسی جماعتوں نے مذہب کارڈ کو استعمال کرنے کی خطرناک روش کو اختیار کر لیا ہے جس سے کئی معصوم لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ مظلوم، معصوم طبقات خصوصاً خواتین، نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سیاسی جماعتیں ایک مربوط، مضبوط اور مستحکم پالیسی سازی میں معاون و مدد گار ثابت ہوں تا کہ قومی یکجہتی کا فروغ بھی ہو سکے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بھی پیدا ہو سکے۔
تاریخ کے اوراق چھاننے سے معلوم ہوتا ہے کہ 38-1937 کی کانگریسی وزارتوں کا مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ہتک آمیز رویہ پوری دنیا کے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس جو ہمیشہ سے اس بات کا دعویٰ کرتی رہی کہ وہ تمام ہندوستانی اقوام کی واحد نمائندہ جماعت ہے لیکن درحقیقت عملی طور پر اپنے متعصبانہ رویہ، پر تشدد سرگرمیوں اور انتہا پسندانہ پالیسیوں کی بدولت کبھی بھی اکثریتی مسلمان ووٹرزکی حمایت حاصل نہ کر سکی۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے ہمیشہ جناح کی قیادت میں سیاست میں پرتشدد سرگرمیوں کی مخالفت کی۔ اب نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں گزشتہ چند برسوں سے پرتشدد سرگرمیوں نے جنم لیا ہے۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پرتشدد سرگرمیاں غیر آئینی اور غیر قانونی راستہ اختیار کرنا کسی بھی صورت میں ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ نیز یہ اقدامات جناح کے افکار اور فرمودات کے بھی خلاف ہیں۔
آج پاکستان کو بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات کا سامنا ہے۔ معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ روزگار کے مواقع مخدوش ہو گئے ہیں۔ افراطِ زر نے غریب کو خود کشی پر مجبور کر دیا ہے۔ اہم صنعتیں تباہی کے قریب ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری انتہائی نچلی سطح پر آ چکی ہے۔ روپے کی قدر گرتی چلی جا رہی ہے۔ اس شدید معاشی ابتری میں ملک کسی بھی قسم کے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
سیاسی جماعتوں پر آج یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قانون و انصاف اور جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے اپنا مثبت، جمہوری اور آئینی کردار ادا کریں۔
آج وقت آ چکا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندر سے ان شرپسند کالی بھیڑوں کی نشاندہی کریں جو حالیہ تخریب کاری، پر تشدد سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور ریاست پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹنا چاہتے ہیں۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو کام ہمارا ازلی دشمن بھی 1947 سے لے کر اب تک نا کر سکا، وہ کام ان شرپسندوں اور بلوائیوں نے کر دکھایا ہے۔ یہی شرپسند عناصر نا صرف ریاستی اداروں بلکہ اہم ریاستی املاک اور حساس عسکری مقامات پر حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ آج ملک شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ ہمارے دیرینہ دوست ملک چین نے بھی ہمیں فوری طور پر سیاسی استحکام لانے کا مشورہ دیا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ سیاسی جماعتیں فوری طور پر نا صرف ان ریاست مخالف عناصر سے لاتعلقی کا اظہار کریں بلکہ ان کی نشاندہی میں بھی ریاستی اداروں کی معاونت کریں تا کہ ان بلوائیوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔
غیر قانونی و غیر آئینی حربے اور پرتشدد سرگرمیاں دراصل جمہوریت کے لیے ایک ناسور ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ان ریاست مخالف عناصر اور بلوائیوں کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے تا کہ نا صرف جمہوری قدروں کا فروغ ہو سکے بلکہ ایک 'پرامن جمہوری پاکستانی معاشرہ' بھی قائم ہو سکے۔ آج ضرورت اس اَمر کی ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں تمام سیاسی و جمہوری قوتیں باہم مل کر تمام سیاسی مسائل کا حل باہمی بات چیت کے ذریعے نکالیں تا کہ پاکستان کو درپیش تمام چیلنجز کا مل کر مقابلہ کیا جا سکے۔
پروفیسر کامران جیمز سیاسیات کے استاد ہیں اور فارمن کرسچین یونیورسٹی لاہور میں پڑھاتے ہیں۔