پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نیب آرڈیننس ترمیمی بل منظور

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نیب آرڈیننس ترمیمی بل منظور
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران نیب آرڈیننس میں ترمیم کا بل منظور کر لیا گیا۔

سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہونیوالے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے ترمیمی بل پیش کیا گیا .

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بل کی مخالفت کی ۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے نیب ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آمر کے بنائے گئے نیب قانون کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔ بڑی ترمیم ہوتی ہے تو کچھ مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ نیب ترامیم پر ایک سیاسی جماعت نے شور مچایا اور اس کو این آر او قرار دے دیا۔ وقت نے ثابت کیا کہ اگر یہ کسی بھی صورت میں این آر او ہے تو اس این آر او کا فائدہ صرف پی ٹی آئی کو ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس پارلیمان کے بہت سارے اراکین نے صعوبتیں برداشت کیں۔ اسی معزز ایوان کے اراکین کے مقدمے سنتے ہوئے سپریم کورٹ نے خود کہا کہ نیب اس وقت کے چیئرمین جاوید اقبال کی سربراہی میں سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوا۔ اسی دوران 17 ججز کی موجودگی میں اس وقت کے چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کو سیاسی مقاصّد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے گزشتہ سال نیب بل کی منظوری دی تھی۔ پارلیمنٹ نے نیب قانون میں مناسب ترامیم کی تھیں۔عدالتوں نے نیب قانون کو کالا قانون قراردیا تھا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے دور میں نیب سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔ عمران خان نے نیب قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھاہے۔ صدر نے اعتراض کیا قانون سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے قانون ساز ادارہ قانون سازی نہ کرے۔

علاوہ ازیں مشتاق احمد نے کہا کہ ججز اور جرنیل احتساب سے بالاتر ہیں۔ کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں تو بیروکریسی،ججز ،جرنیل اور سیاستدانوں کا احتساب کرنا ہوگا۔ کرپشن کو دہشتگردی کے برابر سنگین جرم قرار دیا جائے۔

قومی اسمبلی میں کرپشن کو سنگین دہشتگردی قرار دینے سے متعلق سینیٹر مشتاق احمد کی ترمیم کثرت رائے سے مسترد کردی گئی۔

یاد رہے کہ مزکورہ بل قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد صدر مملکت کو ارسال کیا گیا تھا تاہم صدر نے بل پر دستخط کیے بغیر واپس پارلیمان کو بھجوایا دیا تھا ۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد بل ایک مرتبہ پھر صدر علوی کے پاس جائے گا۔ صدر کی جانب سے 10 روز تک دستخط نہ کرنے کی صورت میں بل خود بخود لاگو ہو جائے گا۔