جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع، اور نجم سیٹھی کی چڑیا

جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع، اور نجم سیٹھی کی چڑیا
نجم سیٹھی پاکستان کے خطرناک ترین صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ خطرناک کا لفظ یہاں کیوں استعمال کیا گیا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جو خبر اکثر صحافیوں کے پاس ہوتی ہے، سیٹھی صاحب اسے بیان بھی کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیو نیوز سے پروگرام ختم ہونے کے بعد کئی سال تک سکرینوں سے غائب رہے اور پھر واپس بھی آئے تو چند ہی ماہ میں کئی مرتبہ چینل بند کروانے کے بعد اپنا پروگرام ہی بند کروا بیٹھے۔

ان کی چڑیا کے پاس سے لیکن آج بھی ایسی ایسی خبریں نکلتی ہیں کہ فرائیڈے ٹائمز کا ہفتہ وار تجزیہ اگر اردو میں لکھا کرتے تو خریدنے والوں کی قطاریں سوٹیاں مار مار کر ٹھیک کروانی پڑتیں۔ اب آج کا اداریہ ہی اٹھا کر دیکھ لیں۔ جنرل باجوہ کی توسیع سے متعلق تجزیہ کر کے انہوں نے ایک ایسی بحث چھیڑ دی ہے جو شاید پاکستان میں کوئی اور صحافی نہیں چھیڑ سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا دھرنا اچانک ختم ہو جانا بھلے معنی خیز نہ ہو لیکن عمران خان کے ماضی کے چند روز کے اقدامات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اور حکومت ایک صفحے پر نہیں، اور کہیں نہ کہیں عمران خان کو بھی جنرل باجوہ کے جانے کا یقین ہو چلا ہے۔



انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ شہباز شریف اور آصف زرداری نے مولانا کے دھرنے میں بھرپور شرکت نہ کر کے safe کھیلا ہے تاکہ اگر جنرل باجوہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہوں نے توسیع نہیں لینی تو کم از کم ان کے اگلے تین سالہ دور کی شروعات میں ان کے دماغ میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے حوالے سے شکوک و شبہات نہ ہوں۔

تاہم، عمران خان کا واضح ہدایات کے باوجود یہ فیصلہ کہ نواز شریف کو گارنٹی کی رقم لیے بغیر باہر نہیں جانے دینا، سیٹھی صاحب کے نزدیک یہ ثابت کرتا ہے کہ عمران خان احکامات بجا لانے میں کوتاہی برت رہے ہیں، اور اتنے گستاخ وہ اسی صورت میں ہو سکتے ہیں اگر انہیں یقین ہو کہ ان ہدایات کی بجا آوری نہ بھی ہو پائے تو وہ زیادہ مسئلہ نہیں۔

سیٹھی صاحب کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ واقعی چاہتی ہے کہ نواز شریف پاکستان سے چلے جائیں کیونکہ ان کی حالت واقعی نازک ہے اور اگر انہیں کچھ ہو گیا تو نواز شریف کا مدعا ان کے گلے پڑ جائے گا۔



مگر نصرت جاوید کا اگلے روز لکھا گیا کالم ایک بالکل مختلف نقشہ کھینچتا دکھائی دیتا ہے۔ نصرت صاحب لکھتے ہیں کہ نواز شریف کی جان کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ اتنی فکرمند نہیں۔ وہ تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ حکومت کے اندر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ نواز شریف کے مرنے سے ویسے ہی کوئی فرق نہیں پڑے گا جیسے بھٹو کے مرنے سے ملک کو کچھ نہیں ہوا۔ بینظیر بھٹو کی حکومت صرف اس لئے آ سکی کہ ضیاالحق اپنے آموں کے ساتھ پھٹ گئے تھے جب کہ یہ حکومت بھی دو سال سے کم عرصے میں فارغ کر دی گئی تھی۔

یہ تجزیہ لیکن کچھ زیادہ ہی سخت دکھتا ہے۔ اتنے بھی کٹھور نہیں ہو سکتے اب کہ نواز شریف کو جی ایم سید، بھٹو یا شیخ مجیب کی طرح treat کریں۔ نواز شریف صاحب پنجابی ہیں۔ اتنے غیر اہم بھی نہیں۔

ایک بات لیکن یاد رہے، کہ اقتدار کی میوزیکل چیئر کوئی بھی جیتے، کوئی بھی ہارے، اس سے ہماری حالتِ زار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ عمران خان، جنرل باجوہ یا کوئی اور، ٹماٹر، پیاز اور گوبھی سستے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.