کیا کراچی میں رہائش کا بحران سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے؟

کیا کراچی میں رہائش کا بحران سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے؟
کراچی ایک گنجان آباد شہر ہے جس کی آبادی کی ایک بڑی تعداد دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے لوگوں پر مشتمل ہے اور اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب کراچی کو رہائش کے بحران کا سامنا ہے- اگر 1998 کی مردم شماری ( 9.8 ملین آبادی) کا 2017 کی حالیہ مردم شماری (16 ملین آبادی) سے موازنہ کیا جائے  تو کراچی کی آبادی تین اعشاریہ تین کی اوسط سے ہر سال بڑھ رہی ہے.  یہ تو ہوئے سرکاری اعدادوشمار،  مگر اکثر ادارے اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ 2017 میں شہر کراچی کی آبادی 25 ملین تھی اس اعتبار سے کراچی کی آبادی کے بڑھنے کی سالانہ اوسط شرح آٹھ اعشاریہ ایک بنتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کراچی کے ایک کروڑ 55 لاکھ شہری آج بھی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں جو مجموعی آبادی کا 62 فیصد ہے۔



2017 کی مردم شماری کے مطابق کراچی میں رہائشی خاندانوں کی کل تعداد 27 لاکھ 30 ہزار  تھی جس میں سے  16 لاکھ 41 ہزار رہائشی مکانات ملکیت کے ساتھ تھے جبکہ10 لاکھ 89 ہزار رہائشی مکانات  کرائے پر / بغیر کرائے کے تھے ( تفصیل کے لئےجدول نمبر 1 ملاحضہ کریں)۔  عام مشاہدہ ہے کہ دوسرے صوبوں سے آنے والے زیادہ تر شہری کرائے کے گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ مناسب قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں  یا پھر کچی آبادیوں میں مکان خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ شہری غریب طبقے کی اکثریت اپنے معاشی حالات کے پیش نظر زمین خرید نہیں سکتی کیونکہ رسمی بستیوں میں اور شہر کے بیچوں بیچ خالی زمین کی قیمتیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ان کی استطاعت سے باہر ہیں کہ وہ اس پر مکان تعمیر کرسکیں۔



جس طرح کراچی کی کل آبادی ایک سوالیہ نشان ہے اسی طرح رہائش کی طلب و رسد کے کوئی اعدادوشمار موجود نہیں۔ حکومت آج تک ایسا کوئی سروے نہیں کر سکی جس میں یہ بتایا جاسکے کہ کراچی میں رہائش کی سالانہ طلب و رسد کتنی ہے؟ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سرکاری سطح پر رہائش کے حوالے سے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی جارہی بلکہ پچھلی تین دہائیوں میں سرکاری رہائشی اسکیموں کو سائڈ لائن لگایا گیا- تیئسر ٹاؤن اور ہاکس بے اسکیموں کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ سالوں گزرنے کے باوجود ان سرکاری اسکیموں کو پنپنے نہیں دیا گیا جبکہ ٹھیکیداروں کی اسکیموں کو کامیاب کرایا گیا- کراچی کی سرکاری رہائشی اسکیموں تیئسر ٹاؤن اور ہاکس بے میں اپنے گھر کا خواب سجائے ہزاروں افراد منوں مٹی تلے جا سوئے اور لاکھوں ایسے ہیں جنکے پیسے گویا کہ ڈوب گئے اور ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی جبکہ یہی اتھارٹی ٹھیکے داروں/سوسائٹیوں کے لیے فعال ہے۔

سندھ کچی آبادی کے اعدادوشمار کے مطابق کراچی میں575 کچی آبادیاں ہیں جن میں سے آدھی بھی 'باضابطہ' نہیں ہوسکیں جبکہ وہ1987 سے پہلے سے موجود ہیں اورماسٹر لسٹ میں شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شہر کراچی میں1500 سے 2000 کے قریب غیر رسمی بستیاں موجود ہیں چاہے وہ کچی آبادی ہو گوٹھ ہو یا  پھرجھگیاں۔ رہائش کی کمی اپنی جگہ مگر اس سے بڑھ کر ستم یہ کہ موجودہ غیر رسمی رہائش کو ختم کر کے لوگوں کو بے گھر کرنے کا سلسلہ پورے زوروشور سے جاری ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے سے ملحقہ آبادیوں سے شروع ہونے والا سلسلہ منظورکالونی نالےسے ہوتا ہوا گجر نالے سے لیکر اورنگی نالے تک پہنچ چکا ہزاروں خاندان بےگھر کر دئیے گئے اور  مزید کئے جارہے ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں جبکہ دوسری جانب بحریہ ٹاؤن میں  ہزاروں گوٹھ  واسیوں کو ان کی رہائش سے جبری بے دخل کیا گیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

پاکستانی آئین کے آرٹیکل 38-د   میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ “عوام کو رہائش اور روزی فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے“۔  عوام کو رہائش کی فراہمی تو درکنار کراچی ہو یا اسلام آباد، موجودہ صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ریاست عوام کے پاس جو ( غیر رسمی رہائش)  بھی بچا ہے،  وہ بھی لے رہی ہے اور بے گھر اور کرائے پر رہائش رکھنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

کراچی شہر میں اسی اور نوے کی دہائی میں تین کم آمدنی والے طبقے کے  لئے رہائشی اسکیموں کا آغاز کیا گیا تھا جس میں سرجانی ٹاؤن، مہران ٹاؤن اور خدا کی بستی شامل تھیں۔ اس کے بعد کراچی میں سرکاری سطح پر (ادارہ ترقیات کراچی یا دیگر سرکاری اداروں کی جانب سے ) اس طرح کے کوئی منصوبے شروع نہیں کیے گئے بلکہ مہران ٹاؤن کا حال سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح  دیگر سرکاری رہائشی اسکیموں بشمول تیئسر ٹاؤن اور ہاکس بے اسکیموں کی جانب حکومت کی کوئی توجہ  نہیں۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی جیسے شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی کو پناہ دینے کے لیے ریاست کی منصوبہ بندی کی عدم موجودگی میں عوام کیا کریں؟جبکہ رہائش فراہم کرنے والے ادارے، ادارہ ترقیات کراچی (کے ڈی اے) اور ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی شہر کی رہائش کی ضرورت کو پورا کرنے میں ناکام ہوچکے۔ کراچی میں بھی یہی رجحان دیکھنے میں آیا کہ سرکاری اداروں کی سستی رہائش کی فراہمی میں ناکامی کے بعد غیر رسمی بستیوں کے بننے اور بسنے میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ کیونکہ چھت انسان کی بنیادی ضرورت ہے تو وہ جہاں کہیں بھی انہیں جگہ ملے گی وہ آباد کریں گے۔(عموماً وہ سرکاری زمین ہوتی ہے جسے اداروں نے برس ہا برس سے خالی چھوڑا  ہواہوتا ہے)

پاکستان میں شہری علاقوں کے لیے ہر سال رہائشی اکائیوں کی طلب کے مقابل باضابطہ فراہمی صرف 42 فی صد ہے۔ اسکے بعد خسارے کو غیر رسمی بستیوں سے پورا کیا جاتا ہے جیسے لوگ ندی، نالوں کے کنارے، ریل کی پٹری کے ساتھ، میدانوں میں، پلوں کے نیچے حتیٰ کہ پہاڑوں پر اپنے گھر بناتے ہیں.اس طرح وجود میں آنے والی بستیوں کو کئی سالوں سے ریاستی محکموں (محکمہ کچی آبادی و بلدیہ عظمیٰ و ریونیو) نے قانونی حیثیت بھی دی ہوئی ہے اور کراچی کی کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت نے اپنے مکانات کے لیے دستاویزات کے ساتھ لیز حاصل کی ہوئی ہیں۔ مگر اس لیز کی حیثیت کیا ہے؟

اب تک مختلف منصوبوں پر کام کے دوران مجھے شہر کراچی میں 700 سے زائد غیر رسمی بستیوں پر براہ راست کام کا موقع ملا جبکہ 400 سے زائد وہ تھیں جنکے متعلق تفصیلی معلومات دستیاب نہیں ہوسکیں  ( یعنی انکے نام اور متعلقہ ضلع کی معلومات ہی مل سکیں جبکہ ان کے جغرافیائی مقام کی نشاندہی نہیں ہوئی ، وہ آبادیاں اپنا وجود رکھتی ہیں)  کیونکہ سرکاری ادارے اس تحقیق میں دلچسپی نہیں لیتے۔

دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیوں، قدرتی آفات اورتلاش معاش سمیت مختلف وجوہات کی بنا پرلوگ دیہی علاقوں سے کراچی جیسے بڑے شہروں میں نقل مکانی کر رہے ہیں اور یہ بڑے پیمانے پرہو رہی ہے۔ مگر ریاست کے پاس اس سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں یہ ( ریاست)  انہیں گھر نہیں دے سکتی اور شہر کے مرکز میں زمین کی عدم دستیابی کے سبب یہ نقل مکانی کر کے آنے والے  لوگ کچی آبادیوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں یا نئی  کچی آبادیاں آباد کرتے ہیں۔ صرف 2010 کے سیلاب کے بعد سندھ کے چھوٹے شہروں سے  ہزاروں خاندان کراچی کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے اور آج 10 سال گزر جانے کے باوجود بھی صرف سپر ہائی وے سے ملحقہ جھگیوں میں 6000 خاندان آباد ہیں اور ضروریات زندگی یعنی پانی، بجلی اور گیس کے بغیر زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے ہیں۔

ماہر آبادیات ڈاکٹر سید نواز الھدایٰ کہتے ہیں کہ" ہاکس بے اسکیم کی کوئی منطق نہیں تھی کیونکہ وہاں پانی کی عدم دستیابی کا معاملہ تھا، حکومت اور اداروں نے پانی کی فراہمی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اسی تیئسر ٹاؤن میں بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، ورنہ تیئسر ٹاؤن اتنی بڑی اسکیم ہے کہ اس شہر کے رہائش سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لئے بہترین متبادل ہے مگر وہاں پر بھی حکومت کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیونکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ حکومت عوام کو سہولیات دینے کو تیار نہیں اگر تیئسر ٹاؤن کو ترقی دی جاتی تو یہ بڑے مافیا اور ٹھیکیدار بحریہ ٹاؤن اور آباد وغیرہ کو کیسے کامیاب کیا جاتا جبکہ اگر تیئسر ٹاؤن نہ ہوتا تو اتنی دور بحریہ ٹاؤن کو آباد کرنے کا خیال کیسے آتا؟"

کراچی کو شہری تجدید کی ضرورت ہے، یعنی شہر کی صفائی، بحالی اور دوبارہ ترقی کے لئے منصوبہ بندی کی جائے مگر اس منصوبہ بندی میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ شہر میں مقیم غریب طبقے کو کسی طرح کے نقصان سے دو چار نہ ہونا پڑے­۔ جیسا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور برساتی نالوں کی صفائی کے نام پر لوگوں کو انکی رہائش سے بے دخل کر کے کیا جارہا ہے۔

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے