اورنگی اور گجر نالے پر آبادی کی مسماری سے ایک لاکھ لوگ بے گھر ہونگے، متاثرین

اورنگی اور گجر نالے پر آبادی کی مسماری سے ایک لاکھ لوگ بے گھر ہونگے، متاثرین
اسلام آباد: پیر کے روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اورنگی اور گجر نالے پر تجاوزات کے حوالے سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے انسداد تجاوزات کے محکمے کو آپریشن جاری رکھنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں گجر نالہ اور اورنگی نالے پر قائم تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں متاثرین کے وکیل اور کمشنر کراچی سمیت دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ جو جگہیں لیز پز دی گئی ہیں کیا وہ قانونی ہیں؟ اس پر متاثرین کے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ جی تمام لیزیز قانونی ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ساری کی ساری لیزیز جعلی ہیں۔

عدالت نے کہا کہ یہ بات ہوئی کہ پہلے تمام لوگوں کو معاوضہ دیا جائے پھرتجاوزات ختم ہوں، معاوضے کی ادائیگی ہو مگر آپریشن نہیں رکنا چاہیے۔
واضح رہے کہ محکمہ انسداد تجاوزات نے کچھ عرصہ پہلے کراچی میں اورنگی ٹاؤن نالے اور گجر نالے پر تجاوزات کیخلاف آپریشن کرتے ہوئے تین مقامات پر آپریشن کے دوران 1500 سے زائد گھر مسمار کردیئے تھے۔
محکمہ انسداد تجاوزات کے مطابق 26 کلومیٹر طویل گجر نالے کا 8 کلومیٹر کا علاقہ کلئیر کرلیا گیا ہے اور 23 کلومیٹر طویل اورنگی ٹاؤن نالے کا 6 کلومیٹر کا علاقہ بھی کلیئر کرالیا گیا ہے۔

عوامی ورکرز پارٹی اور کراچی بچاؤ تحریک کے عہدیدار خرم علی جو گجر نالے اور اورنگی کے متاثرین کے لئے جدوجہد کررہے ہیں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے ایک ہی فیصلے سے گجر نالے اور اورنگی سے ایک لاکھ لوگ بے گھر ہوجائینگے جن میں 21 ہزار بچے بھی شامل ہے.
خرم علی کے مطابق ایک سروے کے مطابق صرف گجر نالے پر 4900 سے زائد گھر ہے مگر اعداد و شمار کہیں زیادہ ہیں اور اس آپریشن کے نتائج وہاں رہنے والے انسانوں کے تباہ کن ہونگے۔
سندھ میں گجر نالے اور اورنگی کے متاثرین پر رپورٹنگ کرنے والی ایک صحافی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ آج کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا بم صرف ان پر گرایا گیا جنھوں نے قانونی طور پر رقوم دیکر یہ زمین حاصل کی تھی مگر ان اداروں اور افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی جنہوں نے رقوم حاصل کی. صحافی کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے نہ صرف زمین رقوم دیکر حاصل کی تھی بلکہ سندھ حکومت کے اداروں نے بجلی اور گیس کے میٹر بھی لگائے تھے اور یہ لوگ بل ادا کررہے تھے لیکن بغیر کوئی نوٹس دئیے ان لوگوں کے گھر ایک لمحے میں چھین لئے گئے اور ان کو بے گھر کردیا گیا۔ ان کے مطابق ایک چھوٹے سے اخبار میں اشتہار دیا گیا تھا کہ ان کے گھر مسمار ہونگے مگر کسی کو ذاتی حیثیت میں نوٹس نہیں دیا گیا جو قانون کے خلاف ہے۔

خرم علی کا ماننا ہے کہ ایک تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ ان دونوں جگہوں پر آباد لوگوں نے ان زمینوں پر قبضہ کیا ہے مگر یہ حقائق سے منافی ہیں، ان مقامات پر رہنے والے زیادہ تر ہندوستان کی تقسیم کے بعد یہاں آباد ہوئے کیونکہ اس وقت ملک کے پاس وسائل کی کمی تھی تو لوگوں کو ان دو مقامات پر آباد کیا گیا۔

خرم علی کہتے ہیں یہ قبضہ مافیا نہیں بلکہ انہوں نے پیسے دیکر یہ زمین لیز پر خریدی ہے اور سندھ حکومت کو چاہئیے کہ وہ کراچی میٹروپولیٹن اتھارٹی، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے بھاری رقوم لیکر لوگوں کو یہاں آباد کیا اور اب ان کو بے گھر کررہے ہیں.

چیف جسٹس پاکستان نے آج کے سماعت میں کہا کہ ہم تجاوزات کو ختم کرنے کو نہیں روک سکتے، سندھ حکومت کو متاثرین کی بحالی کا حکم دیں گےکیونکہ یہ سندھ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ اس حوالے سے لوگوں کو معاوضہ ادا کریں۔
خرم علی کے مطابق اگر لوگوں کو نکالنا ہے تو کوئی قانونی طریقہ اختیار کرکے ان کو باعزت طریقے سے معاوضہ ادا کرکے باہر کریں لیکن لوگوں کو گھروں سے نکال کر باہر پھینکنا آئینی حقوق کی منافی ہے۔

واضح رہے کہ اس آپریشن کے خلاف متاثرین نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر سندھ ہائیکورٹ نے کراچی میں گجر نالے اور اورنگی نالے کے اطراف میں قائم لیز مکانات مسمار کرنے سے انتظامیہ کو روکتے ہوئے وضاحت کے لیے حکومت سندھ کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ نے لیز کی زمین پر حاصل کئے گئے گھروں کے مسماری پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ متاثرین کو آباد کرنے کے لیے کوئی میکانزم نہیں بنایا گیا تو لوگوں کو کیوں بے گھر کیا جا رہا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے کاروائی 18 مئی تک ملتوی کی تھی۔
خرم علی کے مطابق جس نالے اور صفائی کا بہانہ بنا کر لوگوں پر جو چڑھائی کی جارہی ہے وہ حقیقت کے منافی ہے کیونکہ اگر سندھ حکومت نالے صاف نہیں کرسکتی تو پھر زمہ داری یہاں کی رہائشیوں پر نہ ڈالے کیونکہ نالے کی صفائی میں کوئی رکاوٹیں نہیں ہیں اور یہ آبادی ایک بڑے فاصلے پر واقع ہے. انہوں نے موقف اپنایا کہ سندھ حکومت جس تیس میٹر روڈ کی بات کررہی ہے ان کا سپریم کورٹ کے فیصلے میں دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں۔
نیا دور میڈیا نے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور سندھ میٹروپولیٹن سے موقف جاننے کے لئے کئی بار رابطہ کیا مگر انھوں نے جواب نہیں دیا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔