گجر نالہ متاثرین کا بلاول ہاؤس کے باہر احتجاج ناکام بنا دیا گیا، پولیس نے مظاہرین کو گرفتار کر لیا

گجر نالہ متاثرین کا بلاول ہاؤس کے باہر احتجاج ناکام بنا دیا گیا، پولیس نے مظاہرین کو گرفتار کر لیا
انسداد تجاوزات آپریشن کے نام پر گجر اور اورنگی نالوں کے ساتھ قائم مکانات منہدم کرنے کے خلاف متاثرین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بلاول ہاؤس کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

تاہم مظاہرین کے منتظمین کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے اور دو بسز کو قبضے میں لیتے ہوئے متعدد افراد کو حراست میں لیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ مظاہرین  کا کہنا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر کوثر نیازی کالونی میں واقع ان کے دفتر پر چھاپہ مارا اور بینرز اور پرچے بھی چھین لیے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے کسی بھی شخص کو حراست میں لینے یا تشدد کرنے سے انکار کردیا۔ ترجمان وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ اس واقعے پر وزیر اعلی سندھ نے تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

کراچی بچاؤ تحریک (کے بی ٹی) کے کنوینر خرم نے بتایا کہ رکاوٹوں کے باوجود بہت سے مظاہرین جن میں زیادہ تر نوجوان مرد اور خواتین تھیں، بلاول ہاؤس کے قریب پہنچے جہاں پولیس نے انہیں روکا اور ان سے بینرز چھین کر 20 سے زائد افراد کو حراست میں لیا۔

اس کے بعد مظاہرین نے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کیا۔ ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے خرم نے کہا کہ صبح سے ہی پولیس نے جارحانہ رویہ اپنایا ہوا تھا۔ انہوں نے مبینہ طور پر کوثر نیازی کالونی میں واقع ان کے دفتر پر چھاپہ مارا اور بینرز اور پرچے بھی چھین لیے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'چھاپے کا مقصد کے بی ٹی کے صدر عابد اصغر کو گرفتار کرنا تھا جو وہاں موجود نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس وہاں موجود رہی اور لوگوں کو بلاول ہاؤس جانے سے روکنے کی کوشش کی۔

انہوں نے دعوی کیا کہ بوٹ بیسن اور ساؤتھ سٹی ہسپتال کے قریب پولیس نے خواتین، بچوں اور مردوں کو لے جانے والی دو بسز کو ہائی جیک کرلیا جبکہ 20 سے 25 مظاہرین کو بلاول ہاؤس کے قریب حراست میں لیا گیا اور انہیں مختلف تھانوں میں منتقل کردیا گیا۔

تاہم ان میں سے چند کو بعد میں رہا کردیا گیا جو کے پی سی میں ہونے والے احتجاج میں شامل ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ اگر اورنگی ٹاؤن اور گجر نالوں کو محمود آباد نالہ کی طرز پر بحال کیا گیا تو 90 فیصد مکانات انہدام سے بچائے جاسکتے ہیں۔

خرم جو عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بھی ہیں، نے کہا کہ ان کا دوسرا مطالبہ معاوضے کی ادائیگی اور ان لوگوں کو متبادل رہائش کی فراہمی سے متعلق ہے جن کے مکانات منہدم ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب ایس ایس پی ساؤتھ زبیر نذیر شیخ نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے کسی شخص کو حراست میں نہیں لیا اور نہ ہی اسے گرفتار کیا ہے۔ انہوں نے مظاہرین کے خلاف کی جانے والی کسی کارروائی سے بھی انکار کیا اور کہا کہ مظاہرین نے سڑک بند کردی تھی۔ پولیس نے انہیں 'پریس کلب' احتجاج کے باقاعدہ مقام پر جانے کا مشورہ دیا اور 'ریڈ زون' میں بھی احتجاج پر پابندی عائد کردی جس کے بعد مظاہرین کے پی سی کے لیے روانہ ہوئے۔

ایک اور پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 4 خواتین سمیت 30 کے قریب مظاہرین کو حراست میں لیکر انہیں متعلقہ تھانے لایا گیا تھا اور بعد میں رہا کردیا گیا تھا۔

حکومت سندھ کے ترجمان بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ وزیر اعلی مراد علی شاہ نے بلاول ہاؤس کے باہر پولیس کی طرف سے احتجاج اور مظاہرین پر مبینہ تشدد کا نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا 'حکومت سندھ اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرتی ہے'۔

بشکریہ: ڈان نیوز