Get Alerts

اشرف المخلوقات اور ماحولیاتی تبدیلی

اشرف المخلوقات اور ماحولیاتی تبدیلی
بچپن میں پہلی بار اشرف المخلوقات کا لفظ اپنے گاؤں میں مسجد کے مولوی سے سنا تھا۔ اوراس پر مکمل یقین کالج میں ایک سہ روزہ لگانے کے دوران امیر صاحب کا بیان سننے کے بعد ہوا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ امیر صاحب نے اشرف المخلوقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں انسان بنایا۔ امیر صاحب نے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ سوچو! اگر وہ ہمیں جانور بناتا یا کوئی پرندہ تو ہم کیا کر سکتے تھے؟

اشرف المخلوقات کے امیر صاحب والی تھیوری پر بہت سال یقین رہا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہوا کہ اس دنیا میں اشرف المخلوقات سے ہزاروں سال پہلے بھی مختلف آبی حیات، جانور، پرندے، اور دوسرے لاتعداد سپیشیز موجود تھے۔ مطلب انسان سے پہلے بھی یہ دنیا قائم و دائم تھی اور اشرف المخلوقات بھی اس ماحولیاتی نظام کا حصہ ہیں جس میں میں دوسرے انواع موجود ہیں۔ اس قدرتی نظام کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں کوئی بھی چیز بغیر کسی مقصد کے زندہ نہیں ہے۔



یہاں پر ایک پرندے کنگ فشر جسے پشتو میں (محی خورک) کہتے ہیں کی کہانی بیان کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ کس طرح کسی ایک نوع کو ختم کرنے کے بعد اس کے اثرت ہماری صحت، سماج اور معیشت پر ہوتے ہیں۔ ایک فش فام میں چند کنگ فشر فام سے مچھلیوں کو اٹھاتے تھے، مالک نے یہ سوچا کہ اگر یہ سلسہ جاری رہا تو یہ مچھلیاں تو یہاں سے ختم ہو جائیں گی۔ اس لئے  مالک نے ایک ایک کر کے سارے کنگ فشرز کو مار دیا۔ پرندے تو ختم ہوئے لیکن اس کے بعد پورے فارم میں ایک بیماری پھیل گئی اور آہست آہستہ مچھلیاں مرنے لگی جس کا مالک کو بہت نقصان ہوا۔ مالک نے جب وجہ جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اصل میں کنگ فشر ان بیمار مچھلیوں کو فارم سے اٹھاتا تھا جن کو ایک خاص قسم کی بیماری لگ جاتی تھی اور وہ پانی کی اوپر کی سطح تک آ جاتے تھے۔

اس طرح اور بھی کئی کہانیا ں ہیں، بلکہ مخلتلف سپیشیز کو ختم کرنے کا عمل باقاعدہ ہمارے عقیدوں اور روایات کا حصہ رہا ہے۔ سانپ کو ہی لے لیجئے، سانپ سے متعلق ہمارے معاشرے میں مختلف قسم کی مثالیں جیسے آستین کا سانپ، سانپوں سے دوستی مت کرو، سانپ کا کوئی بھروسہ نہیں وغیرہ روز سننے کو ملتے ہیں۔ لیکن آپ نے کھبی غور کیا ہے کہ کتنے اشرف المخلوقات سانپ کے ڈسنے سے مرے ہوں گے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنی اموات پاکستان کے ایک ضلع میں صرف ایک سال کے دوران موٹر سائیکل حادثات سے ہوتی ہیں اس سے کئی گنا کم لوگ سانپ کے ڈسنے سے مرے ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ سانپ بھی اس ماحولیتی نظام کا حصہ ہے اور اشرف المخلوقات کو دوسرے زہریلے حشرات سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔ سانپ ہر کاشتکار کی فصلوں کا محافظ ہے۔ جن علاقوں میں سانپ نہیں ہوں گے، وہاں کھیتوں میں چوہے زیادہ ہوں گے جو ہر فصل کے دشمن ہیں۔

لیونگ پلینٹ کی 2018 رپورٹ کے مطابق گذشتہ 40 سالوں میں جنگلی اور سمندری حیات کی 60 فیصد نسل روئے زمین سے غائب ہو چکی ہے۔

مختلف ریسرچز کے مطابق کلائیمیٹ چینج نے پوری دنیا میں ہر جگہ بائیو ڈائیورسٹی کو متاثر کیا ہے۔ اشرف المخلوقات اپنے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی غرض سے جس طرح قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں، اس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ یہ دنیا اس کی ہی وجہ سے تباہی کی طرف گامزن ہے۔

مشہور سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کے مطابق اگر انسان اسی طرح قدرتی وسائل کا استمعال کرتا رہا تو یہ دنیا بمشکل 1000 سال تک ہی باقی رہی گی۔



ماحول کو برباد کرنے میں انسان کے بنائے ہوئے کارخانے اور دوسری انرجی پیدا کرنے والی اشیا جس میں گاڑیوں سے لے کر کمپیو ٹر اور موبائل فون تک شامل ہیں ماحول میں گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اور جس تیزی سے دنیا میں کاربن کا اخراج بڑھ رہا ہے اور ماحول گرم ہوتا جا رہا ہے، اتنی ہی تیزی کے ساتھ اس کے اثرات پوری دنیا میں ہر ذی روح پر پڑ رہے ہیں۔

ہواؤں میں اڑنے والوں پرندوں سے لے کر آبی حیات تک اس اشرف المخلوقات کے کارناموں سے محفوظ نہیں رہے۔ حال ہی میں فلپائن کے ایک ساحل پر مردہ وہیل مچلی کے پیٹ سے چالیس کلو پلاسٹک برآمد ہوا ہے۔

باقی دنیا کی ریاستوں کو چھوڑ کر اگر ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بات کریں تویہاں کے ہر شہری نے اشرف المخلوقات کا حوالہ ہر مسجد، مدرسے، دکان، حجرے، اور خصوصی طور پر یونیورسٹی کی کنٹینوں میں بحث کے دوران دلیل ختم ہونے کے بعد ضرور سنا ہوگا۔ پاکستان میں 2010 کا سیلاب ہو یا کم اور زیادہ بارشیں اس کو گناہوں کے ساتھ جوڑنا یہاں کے اشرف المخلوقات کی ایک منفرد خاصیت ہے۔ اور پاکستان میں کلائمیٹ چینج کے حوالے سے حجام سے لے کر کلائمیٹ چینج کی منسٹر تک ایک ہی رائے رکھتے ہیں۔ یعنی ملک کا ماحولیاتی نظام تب پائیدار ہو سکتا ہے جب آپ کا وزیراعظم نیک، ایماندار اور خصوصی طور پر کرپٹ نہ ہو۔

موسمی تغیر کی وجہ سے پاکستان میں پانی کا مسئلہ روز بروز سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن دنیا کی دوسری اقوام سے اپنے آپ کو افضل سمجنے والے پاکستانی اشرف المخلوقات کی عادتیں بھی دوسری اقوام سے مختلف ہیں۔ یہاں اگر پانی کے زیاں کی بات ہو تو یہ وہ واحد نسل ہے جو پینے، نہانے، لیٹرین اور گاڑیوں کو دھونے کے لئے ایک ہی سورس سے پانی استمال کرتے ہیں۔ پاکستانی اشرف المخلوقات میں ایک نمایاں خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہر وقت خدا کی نعمتوں کے شکرگزار تو ہوتے ہیں، لیکن انہی نعمتوں کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ دنیا کی کوئی بھی مہزب قوم نہیں کرتی۔



وزیر اعظم سے لے کر تمام محب وطن ہندوکش کے پہاڑوں کے آس پاس وادیوں اور دریاؤں کی تصویر لے کر ٹویٹر پر شیئر کرتے وقت یہ ضرور لکھتے ہیں، کہ دیکھو اللہ نے پاکستان میں ہمیں خوبصورت پہاڑ اور حسین دریا دیے ہیں۔ پہاڑوں اور دوسری تمام نعمتوں کو چھوڑ کر صرف ایک دریا کابل کی بات کرتے ہیں جو پاکستان میں افغانستان سے داخل ہو رہا ہے۔

ہزاروں سال سے بہتے اس دریا کے کنارے نجانے کتنی تہذیبیں گزری ہوں گی، نجانے کتنے نباتات و حیوانات اس پانی کے ارد گرد آئے اور فنا ہوئے۔ لیکن ضلع نوشہرہ میں بسنے والے اشرف المخلوقات نے خدا کی اس نعمت کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے جو شاید ہی دریائے کابل کے کنارے دوسری تہذیبوں نے کیا ہوگا۔ ضلع نوشہرہ میں 15 لاکھ سے زیادہ آبادی کا استعمال شدہ ضائع پانی اسی دریا میں گرتا ہے۔ جس نے نہ صرف اس دریا کا حسن جمال تباہ برباد کیا ہے بلکہ اس کی بائیو ڈائیورسٹی مکمل طور پر ختم کر دی۔ یاد رہے یہ صرف دریائے کابل جیسی نعمت کے ساتھ نہیں ہو رہا بلکہ پاکستان میں سب بڑے اور چھوٹے دریاؤں کی یہی حالت ہے۔

اگر پہلے پتہ ہوتا تو میں اس امیر صاحب سے ضرور کہتا کہ کاش اللہ مجھے پرندہ پیدا کرتا۔ سوچو! کتنا بے خوف ان پہاڑوں کے اوپر اڑتا دریاؤں کو اپنا رستہ بناتا اور اوپر سے بہتے ہوئے پانی کی مستی کو محسوس کرتا۔ اور ہاں ہر بہار میں اپنی سریلی اوازسے اپنے لئے ہمسفر تلاش کرتا۔

اشرف المخلوقات کے مقابلے میں پرندہ پیدا ہونے میں ایک تسکین روح کو یہ بھی تو ہوتی کہ ٹی وی سے دور رہتا، ٹی وی سے دور رہتا تو ظاہر ہے ٹاک شوز نہ دیکھتا، اور سب سے مزیدار بات یہ ہوتی کہ نہ تو کلائمیٹ چینج کی منسٹر کو جانتا اور نہ اشرف المخلوقات والی مثال سے واسطہ ہوتا۔

آصف مہمند کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں اور کلائمیٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی موضوعات سے متعلق لکھتے ہیں۔