میڈیا کو نکیل نہ ڈالی گئی تو تبدیلی مارکہ سونامی عفریت بن جائے گا

کبھی لوگ قلم کی جنبش سے بھی خوف زده رہتے تھے اور آج شور و غوغے میں کچھ سنائی دیتا ہے اور نا ہی کوئی اس پر کان دھرتا ہے۔ صحافت دنیا کے دوسرے دھندوں کی طرح ایک رائے کو ہموار کرنے کی مچھلی منڈی بنی ہوئی ہے۔

میڈیا کو نکیل نہ ڈالی گئی تو تبدیلی مارکہ سونامی عفریت بن جائے گا

اگر پچھلی ایک دہائی سے سیاسی انجینئرنگ ایک حقیقت ہے تو اس میں صحافت کا بھی پورا پورا کردار رہا ہے اور اب اگر اس غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اس انجینئرنگ کو ریورس کرنے کی ضرورت کو قوم نے تسلیم کر لیا ہے تو اس جہاد میں صحافیوں کو بھی صف اول کے دستوں میں کھڑے ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ ان کی بھی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ صحافت موجوده انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں ریاست کے چوتھے ستون کے طور پر لی جاتی ہے اور سیاسی بیانیہ بنا کر عوامی رائے کو ہموار کرنے سے لے کر ریاست کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں تک کا کام مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا سے کروایا جا رہا ہوتا ہے۔ مین سٹریم میڈیا تک تو صحافیوں کی میڈیا مالکان کی پابندیوں کے ہاتھوں بے بسیوں کا عذر قابل قبول ہے مگر سوشل میڈیا پر ان سے اس طرح کے عذر کی توقع نہیں کی جا سکتی بلکہ اس پر تو ان پر ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس میں انہوں نے صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا خیال ہی نہیں رکھنا ہوتا بلکہ اس میں صحافت کے نام پر بہروپیوں کے کردار کو بھی بے نقاب کرنا ہوتا ہے جو ان کے شعبے کے عقب سے وار کر کے ان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔

ریاست کی طرف سے بھی ہمیشہ سے اس ستون کے ساتھ بے توجہی برتی جاتی رہی ہے۔ ان کے کردار سے متاثر ہوتے ہوئے ان کو کنٹرول کرنے کی کوشش تو کی جاتی رہی ہے مگر ان کی بہتری اور ترقی کی طرف کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وزارت اطلاعات ان کی سوچوں کو مثبت، غیر جانبدار اور تعمیری بنانے کے لئے ان کی تربیت پر بھی توجہ دیتی۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے کہ اس میں تعلیم و تجربہ کو کسی بھی سطح پر بنیادی شرائط میں نہیں رکھا گیا اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس ستون کے ڈھانچے کو کاروباری سوچ رکھنے والے سرمایہ داروں کے سپرد کر دیا گیا ہے اور اکثریتی اس شعبے میں خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں مالکان کا اس شعبے میں آنے کا مقصد ہی اپنے کاروباروں کا تحفظ، ان کی ترقی اور مالی مفادات کا حصول ہے۔ اب یہ سب کاروباری باہمی اتفاق سے ایک مافیا بن چکے ہیں۔ ریاست نے کبھی بھی اس شعبے کو درپیش مسائل اور چیلنجز کو ریاست کے مقاصد اور مفادات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

یہ وه ستون ہے جو غیر اعلانیہ طور پر ریاست کے اندرونی اور بیرونی معاملات پر بیک وقت اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس کی اس اہمیت کی طرف بھی توجہ ہی نہیں دی گئی اور نا ہی اس کا اندازه صحافتی برادری کو ہے کہ وه اپنی اہمیت اور حیثیت کو سمجھتے ہوئے اپنی تحریروں اور آواز میں اپنے ملکی مفادات کو پیش نظر رکھیں۔ اس شعبہ سے متاثر ہونے والے ریاست کے سفارتی، داخلی اور اصلاحی پہلوؤں کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی تو پھر اس کے نتائج بھی تو ایسے ہی ہوں گے جو آج کل ریاست بھگت رہی ہے۔ صحافیوں کو بھی اپنے ستون کے ڈھانچے کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ کیا اس ڈھانچے کی ساخت، ترتیب اور انتظام و انصرام ان کے اپنے اختیار میں ہے یا ان کو اس میں چن کر ان کے نام پر مفادات حاصل کئے جاتے ہیں۔

صحافتی حلقوں کو اگر اپنی مشکلات پر تحفظات اور شکایات ہیں تو ان کی وجوہات کی تلاش کا آغاز اپنے ڈھانچے سے کرنا ہوگا جو آج تک کسی بھی طرح کی انوسٹگیٹو جرنل ازم سے مخفی ہیں جس پر بڑے بڑے کاروباری ٹائکونز کا قبضہ ہے اور کوئی بھی ان کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا بلکہ ان کے انٹرویوز بھی اس متعلق ہدایات کے جاری ہونے کے بعد کئے جاتے ہیں اور ان کی وڈیو لیکس پر آج تک کوئی وضاحت جاری نہیں ہوئی۔ کیا یہ صرف اس لئے ہے کہ یہ معاملہ ان کی اپنی عزت کا ہے جس پر پردے ڈال دیے جاتے ہیں اور دوسرے اداروں یا ریاست کے ستونوں کی جوابدہی کو صحافتی جہاد کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ جب تک اس طرح کا امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا اس وقت تک صحافتی حلقوں کی مشکلات کا حل اور ساکھ کی بحالی بھی ایک معمہ ہی رہے گی۔

صحافی اگر اپنے ستون کی ریاست میں اہمیت سے واقف ہیں تو پھر ان کو اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں پر بھی غور کرنا ہو گا۔ اگر وه دوسرے ستونوں کی ذمہ داریوں پر انگلی اٹھا سکتے ہیں تو پھر اپنے بھی گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ کیا وه اپنی ذمہ داریوں کو نبھا پا رہے ہیں۔ اگر دوسرے ستونوں کی جوابدہی ہو سکتی ہے تو ان کی کیوں نہیں ہو سکتی اور اگر دوسرے ستون آئین و قانون کے پابند ہیں تو وه کیسے نہیں ہو سکتے اور یہ سب کچھ نظم و ضبط کے بغیر ممکن نہیں وه خواه آئین و قانون کا تعین کرده ہو یا صحافتی حلقے اپنے طور پر اس کا تعین کریں۔ نظم و ضبط ہی حقوق اور ذمہ داریوں کا نا صرف تعین کرتا ہے بلکہ ان کے اندر توازن کو بھی یقینی بناتا ہے۔

دوسرے ستونوں کی طرح صحافتی ذمہ داریوں میں بھی آتا ہے کہ وه ریاست کی طاقت بنیں اور یہ آئین و قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے سے ہی ممکن ہے جس کے لئے صحافیوں کو بھی ریاست کے حق میں سوچ، آواز اور عمل کے ہمراه کھڑا ہونا ہوتا ہے وه خواه ریاستی انتظام و انصرام کی ذمہ داریوں کو سنبھالے ہوئے ریاست کے اندر بیٹھے ہوئے اداروں کے سربراہان اور اہلکار ہوں یا عوام، سیاست دان یا سیاسی جماعتیں۔ جب آپ کا مقابلہ ایسے ستونوں سے ہو جو نظم و ضبط کے پابند ہوں تو پھر اپنے آپ کو بھی کسی نظم و ضبط میں لانا ضروری ہوتا ہے۔ ایسا تو ممکن نہیں کہ دوسروں کو نظم و ضبط کے دائرے میں رہنے کی تلقین اور جوابدہی کی افادیت کے درس دیے جائیں اور خود کو کسی بھی حدود و قیود یا اصول و ضوابط کا پابند ہی نہ سمجھا جائے۔

کبھی صحافت علم و ادب کی ایک شاخ ہوا کرتی تھی اور مسائل پر غور و فکر کے بعد اصلاح اس کا مقصد ہوا کرتا تھا مگر اب تو یہ شور و غوغا بن کر ره گئی ہے اور بلند آواز ہی اس کا اصل معیار ہے جس میں دانش مندی اور اصلاح کو فضول اور بلیک میل کر کے دولت اکٹھی کرنے کو کاروبار بنا لیا گیا ہے۔ کبھی لوگ قلم کی جنبش سے بھی خوف زده رہتے تھے اور آج شور و غوغے میں کچھ سنائی دیتا ہے اور نا ہی کوئی اس پر کان دھرتا ہے۔ صحافت دنیا کے دوسرے دھندوں کی طرح ایک رائے کو ہموار کرنے کی مچھلی منڈی بنی ہوئی ہے جس میں قیمتوں کی بنیاد پر بولیاں لگائے جانے کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ آوازوں کی خریداری کے لئے بروکرز قیمتیں لگانے پر لگے ہوئے ہیں اور آوازیں بک رہی ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں  کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سوشل میڈیا تو ایک ایسا کلب بن چکا ہے جس کا کوئی در و دیوار ہے اور نا ہی کوئی کام کے اصول و ضوابط ہیں۔ کھلے آسمان تلے میدان سجا ہوا ہے اور اس کے اندر صحافی کم اور مداری زیاده دکھائی دیتے ہیں۔ سب اپنی فنکاری کے شاہکار دکھا رہے ہیں۔ جس نے جتنا بڑا مجمع اکٹھا کیا ہوا ہو اتنا ہی وه کامیاب صحافی ہے۔ اس کلب میں سچائی، تعظیم یا ادب کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ ناظرین کا مزاج ہی مقبولیت کا معیار ہے جس کی بنیاد بدتمیزی، جھوٹ اور فساد ہے۔ یوں تو صحافت کی ساکھ کی اصل بنیادیں سچ، تحقیق اور غیر جانبداری ہی ہوتی ہیں مگر ضابطہ اخلاق کے بغیر موجوده تقطیب کے دور میں صحافتی حلقوں میں یکسانیت کو قائم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا اندازه صحافت کے شعبے کے اندر شراکت داری کے منظرنامے سے لگایا جا سکتا ہے۔

پچھلی ایک دہائی میں سوشل میڈیا سے ایسے ایسے شاہکار متعارف ہوئے ہیں جو اب نامی گرامی صحافیوں کے طور پر جانے جاتے ہیں اور انہوں نے جس طرح سے من گھڑت اور بے بنیاد بیانیوں کی تشہیر، تبصروں اور بے بنیاد خبروں کے بل بوتے پر اپنا نام نہاد مرتبہ پایا ہے وه ان کے نزدیک اب صحافت کا معیار بن چکا ہے اور ان کے فالوورز اسی انداز گفتگو اور مفروضوں پر مبنی معلوماتی ذرائع ہی صحافت کی دنیا کی ہر نعمت کے طور پر سمجھے جانے لگے ہیں اور اس میں ان کا اتنا قصور نہیں جتنا ہماری کم علمی اور کم عقلی کا ہے۔ عوام کو اس میڈیم کے طریقہ واردات کی اتنی سوجھ بوجھ ہی نہیں تھی اور وه اس چھوٹی سی سکرین کو سیاسی صحیفوں جیسی اہمیت دینے لگ گئے اور اب ان کو دی گئی معلومات ان کا یقین بن چکے ہیں اور اس نام نہاد صحافت کے یہ شاہکار اب اس سیاسی جہالت کی دنیا کے ہیرو ہیں۔ اور لگتا یوں ہے کہ سوشل میڈیا کی صحافت مین سٹریم میڈیا کو مات دیتی جا رہی ہے۔

صحافت جب تشہیر کا ذریعہ بن جائے تو اس کے نزدیک تعمیر اور تخریب کا فرق اپنی اہمیت کھو بیٹھتا ہے اور یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ تشہیر اور تخریب کی پیداوار کو کیا ضرورت ہے اپنے روزگار خراب کرنے کی، جب خاص طور پر اس سیاسی جہالت کی دنیا میں ان کی کم علمیوں کی بنیاد پر ان کو با شعور ہونے کی سندیں بھی مل رہی ہوں اور وه جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں اپنے ہم مزاج سراہنے والے بھی بہت سارے موجود ہوں۔ اور اب ہماری نسلوں کو اس شر سے کیسے بچایا جائے یہ ذمہ داری بھی ان صحافیوں کی بنتی ہے جن کو سب کچھ معلوم ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اس کے خلاف اس وقت آواز نہیں اٹھائی یا اس کا حصہ بنے رہے۔ اب ان کو چاہیے کہ وه اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگیں اور اپنی اور اپنے فالوورز کی سمت کو درست کریں، وگرنہ اب ان کو ریاست اور عوام دونوں کے غضب کی چکی میں پسنا پڑے گا اور آنے والی نسلیں ان کو معاف نہیں کریں گی۔

یہ کام اتنا آسان نہیں رہا۔ ایک دہائی کا عرصہ زمانوں کی تاریخ کا ایک باب ہوتا ہے جس میں ایک نسل کے یقین پختہ ہو کر نئی کی تربیت شروع ہو چکی ہوتی ہے اور جنہوں نے خود کوششوں سے یہ یقین بنا کر ان کو اس انتشاری مزاج خیزی کو کار خیر کہہ کر اس پر مامور کیا ہو وه کیسے ان کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی تباہی کے سارے بوجھ کو اپنے اوپر اٹھانے اور ان کے غیض و غضب کو برداشت کرنے کی ہمت کر سکتے ہیں اور پھر ایسے ماحول میں جب سب کچھ لٹ جائے اور وسائل ختم ہو جائیں اور ساتھ طعنوں کے تمغے بھی ہر طرف سے مل رہے ہوں۔ المیہ تو یہ ہے کہ اب یہ ریاست کے وسائل اور سربراہی میں تیار ہونے والی نسل جو ایک با شعور نسل کے طور پر سمجھی اور جانی جاتی ہے ان کے نزدیک سیاست، وکالت، عدالت اور انصاف کا جو معیار بن چکا ہے وه اس قدر تیزی سے تباہی کو پھیلا رہا ہے کہ اگر اس کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو جو تبدیلی کے نام پر سونامی کی نوید دی جا رہی تھی وه تباہی کے سونامی میں تبدیلی ہونے والا ہے۔

آپ ذرا ایسے ماحول کا تصور تو کریں جس میں ملزم کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہو اور اس کی بے گناہی کا بوجھ بھی قاضی کے سر ڈال دیا جاتا ہو کہ اس نے جب ہم کہہ رہے ہیں کہ وه بے گناه ہے اتنی ساری ہم عوام جن کے ٹیکس کے پیسے سے قاضی کی تنخواہیں جاتی ہیں جو اس ریاست کے اصل مالک ہیں وه کہہ رہے ہیں کہ وه بے گناه ہے تو قاضی اس کو کیسے گناه گار کہہ سکتا ہے اور ان کے اس مؤقف کے سامنے ساری دلیلیں اور شواہد کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے کیونکہ ان کو سکھایا اور بتایا ہی یہ گیا ہے۔ ان کو جس شخصیت کو عدالتوں نے خود صادق و امین کی سندوں، میڈیا کی نجات دہنده کی یقین دہانیوں اور ریاستی سربراہوں کی امت مسلمہ کے لیڈر کی یقین دہانیوں کے ساتھ ایک دہائی تک یقین بنایا گیا ہو، اس کی نفی اگر عقلی اور شعوری پیمانوں کے خلاف نہیں تو اس میں ان معصوم ذہنوں کا کیا قصور جن کو اب خرابی کے شریک جرم ہونے کا دوش دیا جاتا ہے۔

جو کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے وه کیا پاگل کر دینے کے لئے کافی نہیں۔ یقین کریں گھر سے نکلنے کو دل نہیں کرتا۔ ہماری نوجوان نسل کا شعور اور اخلاق اس قدر بگڑ چکا ہے کہ ان کی سوچ و عمل کے خلاف کوئی دلیل کارگر ہی نہیں رہی۔ کہیں بھی آپ ہوں جس سے بھی گفتگو کرنے کا شرف حاصل ہو سیاسی شعور کے گھمنڈ اور تبدیلی کی خوش فہمیوں نے ان کے ذہنوں میں اس قدر گھر کیا ہوا ہے جس کے سامنے بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے شفقت اور ان کے مؤقف سے اختلاف کی کوشش سے بڑا کوئی جرم ہی نہیں کیونکہ جس نسل کے نزدیک ادب، شفقت اور بردباری اعلیٰ شعار تھے وه خود ان کے نزدیک اس ملک کی تباہی کی ذمہ دار ہے اور وه موجوده دور میں نئی نسل پر فضول سا بوجھ بن کر ره گئے ہیں۔

قصور ان کا بھی تو ہے جنہوں نے ان کو تعلیم کا وه معیار دیا جس میں مادیت کو اہمیت دی گئی، کردار سازی کو نظر انداز کیا گیا اور جس طرح کے ذہنوں کو انہوں نے تیار کیا ہوا تھا وه دور جدید کے شعور ناگہانی میں نفرت، تخریب اور انتشار کے بیج بونے والوں کو میسر آ گئی اور انہوں نے اس سے خوب فائده اٹھایا اور اب جو اس بیج سے فصل تیار ہو گئی ہے یہ اس کو کاٹنے کے بعد خالی ذہنوں کی زمین سے گھاس پھوس کا خاتمہ کر کے پھر سے کسی نئے جاندار بیج سے نئی فصل کاشت کرنی پڑے گی جس سے خیر کی توقع کی جا سکے۔ ایسی صورت حال میں صحافتی ذمہ داریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں اس بات کا بھی احساس رکھنا چاہیے کہ اگر ریاستی بہتری کے کریڈٹ کے صحافی حصہ دار ہیں تو پھر اگر کوئی ان کی رائے کی وجہ سے ملک و قوم کے اندر کسی بھی خرابی کا سبب بنتا ہے تو اس کے نتائج میں بھی ہم برابر کے شریک اور جوابده ہیں اور اس شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی حیثیت کے مطابق ایسے عوامل کی نشاندہی، مذمت اور اصلاح میں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

جہاں ریاستی اداروں کی تعمیری تنقید کی جاتی ہے وہاں ان کے اندر اصلاح کی کوشش کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور ان کے اصلاحی عمل کو اچھے سیاست دانوں یا عہدیداروں جن کا کردار اور کارکردگی اچھی رہی ہے، کے ساتھ ملا کر معاملے کو خلط ملط کر کے پیش نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے اچھے کردار کے لوگوں کی حق تلفی اور حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

اگر ہم صحافت میں شفافیت اور غیر جابنبداری کی بات کریں تو اس کی ذمہ داری کو صرف محض خفیہ اداروں اور طاقتوروں کے عمل کو ہی ذمہ داری نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ اس میں میڈیا مالکان کے ذاتی مفادات کی خاطر صحافیوں کی آواز پر قدغن اور اس کے استعمال کو بھی شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ صحافتی انصاف ہے کہ اگر ریاست کے ادارے اپنی غلطیوں کا اظہار کرتے ہوئے اپنے کئے ہوئے کی اصلاح کر رہے ہیں تو اسے بھی اسی آئینی و قانونی معیار پر پرکھا جائے جس پر خرابیوں کو تحفظ دیا جاتا رہا ہے اور کوئی یہ توقع کرے کہ ان کی جوابدہی کو نظر انداز کر کے انہیں بھی مظلوموں کے برابر حقوق دیے جائیں یا کوئی ان کی اس مطالبے پر وکالت یا صحافت کرے تو وه بھی ملک و قوم کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔

اس وقت صحافت پر آزادی اظہار رائے پر بھی جو مشکلات کا سامنا ہے یا پابندیاں ہیں ان میں بھی غیر ذمہ دارانہ ان حقوق کا استعمال کرنے والوں کا کافی حد تک کردار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ جھوٹ پر مبنی الزامات کی بنیاد پر ایک مؤقف اپنا کر ملک اور اس کے اداروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے تو ٹوئٹر اور دوسرے سوشل میڈیا پر جو پابندیاں یا بندش ہو گی اس میں صحافت اور آزادی اظہار رائے کے تحت اصولی مؤقف رکھنے والے بھی متاثر ہوں گے اور المیہ یہ بھی ہے کہ صحافت اور انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے ان حقوق کی تو بات کرتے ہیں مگر ان حقوق کی آڑ میں ریاست اور اداروں کو نشانہ بنانے والوں کی کوئی مذمت نہیں کرتا اور نا ہی ان کی کوئی نشاندہی کرتا ہے تاکہ عوام کے سامنے یہ بے نقاب ہو سکیں اور ان کی حوصلہ شکنی ہو بلکہ ان حقوق کی آڑ میں ان کو مزید حوصلہ افزائی مل رہی ہے۔

حکومت کو بھی صحافت کو درپیش مسائل کا حل اصلاحات کے ذریعے سے نکالنا ہوگا جس کے لئے میڈیا ہاؤسز کو آئین و قانون کے تابع لانے کی ضرورت ہے تاکہ صحافت کو اپنا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کے لئے صحافی کو پیشہ ورانہ، ذمہ دار، فعال اور مجاز بنا کر اسے ریاست کے دھارے میں شامل کیا جا سکے۔