وزیر خزانہ ظفر تیمور جھگڑا کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیاں کھمبیوں کی طرح اُگ ٓئی ہیں ۔ جس میں حکومت اوراپوزیشن جماعتوں کی غلطیاں ہیں کہ انہوں نے اسے توجہ نہیں دی ۔ وزیر خزانہ صاحب زیادہ یونیورسٹیاں باعث نقصان نہیں ہیں بلکہ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔پرویز مشرف کی حکومت سے پہلے گنی چنی یونیورسٹیاں تھیں ۔پھر پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیاں قائم ہوئیں جنہوں نے عوام کی اتنی ہی خدمت شروع کی جتنی گورنمننٹ یونیورسٹیاں کر رہی تھیں ۔ پھر دور بدلا اور حکومت نے اس بارے میں سوچا کہ طلبہ کی تعداد زیادہ ہے مزید سرکاری یونیورسٹیاں بنائی جائیں ۔ اور یہ یونیورسٹیاں ہر ضلع میں ہوں تو عوام کو دوسری جگہ نہیں جانا پڑے گا ۔ لیکن ساتھ ساتھ اس کے پیچھے ایک اور سوچ بھی کارفرما تھی کہ ان یونیورسٹیوں میں اپنے لوگ بھرتی کئے جائیں گے ۔یعنی اگر ہم یہاں پر کہیں کہ یہ یونیورسٹیاں سیاسی بنیادوں پر قائم ہوئیں تو اس میں دو رائے نہیں ہوگی ۔اس کے لئے قوانین بنائے گئے کہ ہر یو نیورسٹی میں سکیل ایک سے لیکر سکیل سولہ تک اپنے ضلع کے لوگ بھرتی ہوں گے ۔ باقی پوزیشنیں میرٹ پر پُر ہوں گی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اُن پوزیشنوں پر بھی سیاسی اور بیوروکریسی نے قبضہ کرلیا ۔ کیونکہ ان کے بغیر یونیورسٹی چل نہیں سکتی ، ہائیر ایجوکیشن اور ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سمیت گورنر ہاﺅس کی مداخلت کے بغیر یونیورسٹیاں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتیں، گورنر چونکہ یونیورسٹی کا چانسلر ہوتا ہے اور وزیر تعلیم پرو وائس چانسلر ہوتا ہے تو اُن کی مداخلت کے بغیر یونیورسٹی انتظامیہ بشمول وائس چانسلر کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے ۔ کیونکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری روزانہ کی بنیاد پر کوئی نا کوئی حکم نامہ جاری کرتے ہیں جس پر عمل درا مد کرنا یونییورسٹی کے انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے ،ان کی مرضی کے بغیر نہ کوئی بھرتی ہوسکتی ہے اور نہ ہی کوئی بجٹ اپرو ہوسکتا ہے ۔
وائس چانسلر کی تعیناتی کا پراسیس پاکستانی الیکشن سے بھی ایک لمبا چوڑا اور محنت طلب کام ہے. جس کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کا سربراہ ڈاکٹر عطا الرحمن ہیں ۔پہلے تو صوبائی حکومت کی یہ بڑی کمزوری ہے کہ نئی یونیورسٹیوں کے قیام سے لیکر اب تک ڈاکٹر عطاالرحمن ہی خیبر پختونخوا کے سب وائس چانسلروں کی تعیناتی کے ذمہ دار ہیں ۔اور پورے پراسیس کو وہی ڈیل کرتے ہیں جس میں بہت کم لوگ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتے ہیں یعنی ہمارے پاس اپنا کوئی ڈاکٹر عطاالرحمن کے پائے کا نہیں ۔یا ہم کرنا نہیں چاہتے ۔پھر ایک لمبا چوڑا پراسیس جس سے یونیورسٹی کا انتظامی امور ٹھپ ہوجاتا ہے ۔ جب یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تعیناتی ہوجاتی ہے تو اُس کو کام کرنے والی ٹیم چاہییے ہوتی ہے کیونکہ وہ تین سال کے لئے تعینات ہوتا ہے اور باقی ٹیم پہلے سے یونیورسٹی میں موجود ہوتی ہے تو وائس چانسلر کو اُن پر اعتبار کرنا پڑتا ہے اگر ٹیم اچھی ملی تو ٹھیک ورنہ ایسے مشکل میں اُسے پھنسایا جائے گا کہ یونیورسٹی کے اُمور چلانے سے وہ اپنے آپ کو نہیں سنھبال سکتا۔ وائس چانسلر کو یونیورسٹی میں ایک مافیا نہیں بہت سی مافیاز سے سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اگر ہم کہیں کہ ہر کوئی اپنی جگہ پر صوبہ ہوتا ہے تو بے جا نہیں ہوگا ۔
یونیورسٹیوں کا کام تحقیق کا ہوتا ہے مگر یہاں تحقیق کے لئے مواقع ملیں تو بات ہو یہاں تو ہر کوئی سیاست ہی کرتا نظر آتا ہے ۔
اور وہ بھی ایسی سیاست کہ زرداری، شہباز شریف، نواز شریف سمیت سب کو بھول جائیں گے ۔تحقیق برائے نام ہورہی ہے کیونکہ وہ ماحول ہی نہیں ہے ۔
جس کو دیکھتے ہوئے ہر وائس چانسلر اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ وہ اپنا وقت پورا کرے اپنے مراعات لے اور چلتا بنے وہ ریگولر ملازمین کی بجائے عارضی ملازمین سے کام چلانے کو ترجیح دیتا ہے اور اُن کا ایسا استحصال کرتا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔اگر وہ کوئی پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہو جو ایک وقت میں ملک کی سب سے بڑی ڈگری تصور کی جاتی تھی تو وہ اپنے اُس وقت کو کوس رہا ہوگا جس وقت اُس نے پی ایچ ڈی کا فیصلہ کیا تھا ۔اُسے سکول کا ٹیچر اچھا لگے گا جو کم ازکم سکون سے تو کام کرتا ہے تحقیقی مقالوں کی اسے کوئی فکر تو نہیں ہوتی وہ سالانہ گرمی، سردی اور دیگر چھٹیاں بھی انجوائے کرتا ہے ۔اور یونیورسٹی کے اساتذہ سے زیادہ عزت اور پیسے کماتا ہے ۔معاشرے میں بھی اُس کی عزت ہوتی ہے ۔یہ کیوں کیونکہ ہائیر ایجوکیشن میں اوپری سطح سے اصلاحات کی ضرورت ہے ۔اگر یونیورسٹیاں خودمختار ادارے ہیں تو سیاسی عہدیداروں اور بیوروکریسی کی عمل دخل کیوں ہے جہاں وائس چانسلر اپنے فیصلوں میں بااختیار نہیں ہوتا اور اگر وہ کوئی حکومتی بات نہیں مانتا تو گورنر انسپکشن ٹیم کی تلوار اس کے سر پر لٹکتی ہے ۔لب لباب یہی ہے کہ یونیورسٹیوں کی تباہی کا ذمہ ایک شخص ایک ادارہ نہیں بلکہ اس کے ذمہ دار بہت سے ادارے اور لوگ ہیں ۔اگر ہم نے یونیورسٹیوں میں تحقیق کے کلچر کو پروان چڑھانا ہے اور اعلی تعلیم کو عام کرکے انڈسٹری سے لنک کرنا ہے تو ہمیں اوپری سطح سے نیچی سطح تک اصلاحات کے لئے کوشش کرنی ہوگی ۔
مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔