خیبر پختونخوا کا ایک ایسا ادارہ جس نے بڑی شخصیات کو ناصرف جنم دیا بلکہ اب بھی خیبر پختونخوا اور اس کے قبائلی اضلاع کی خواتین کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ یہ ادارہ اکیڈمی کی حیثیت رکھتا ہے جس میں فریش سٹوڈنٹس، اس فیلڈ سے وابستہ افراد اور پریکٹیکل جرنلزم سے شغف رکھنے والوں کو مواقع ملتے ہیں۔ اس ادارے کے پشتو نیوز پروگرامز نے مختلف لوگوں کی پشتو لکھائی اور بول چال کو اتنا امپروو کیا کہ ان کو بین الاقوامی پشتو چینلز میں نوکریاں ملیں لیکن اب یہاں صرف اردو، انگریزی اور ڈیجیٹل ویب سائٹ پر توجہ دی جا رہی ہے۔ جی ہاں! میں بات کر رہی ہوں ٹرائبل نیوز نیٹ ورک یا ٹی این این کی جہاں سے میں نے خود بھی عملی صحافت کا آغاز کیا ہے اور آج تلک سیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
وائس آف امریکہ سے وابستہ بونیر کے عثمان خان کا کہنا ہے کہ ٹی این این سے انہوں نے 2014 میں انٹرن شپ کی تھی اور پھر ملازمت کا پہلا موقع بھی ٹی این این ہی میں ملا۔ پھر وقتاً فوقتاً مختلف کام سیکھے جیسے پروگرام پروڈیوسر، فیس بک لائیو، ایڈیٹنگ وغیرہ۔
"اس ادارے نے مجھے اس قابل بنایا کہ آج میں وائس آف امریکہ کا نمائندہ ہوں"۔
عثمان کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ٹی این این واحد ادارہ ہے جو ہر قسم کے لوگوں کو مواقع دیتا ہے اور اُن میں چھپی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ٹرائبل نیوز نیٹ ورک ناصرف قبائلی اضلاع کے لوگوں کو کام کے مواقع دیتا ہے بلکہ وہ خبریں بھی یہ ادارہ شائع کرتا ہے جن سے دوسرے ادارے گزیر کرتے ہیں۔ ٹی این این ناصرف نیوز ادارہ ہے بلکہ ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتا ہے جس نے پچھلے آٹھ دس سالوں سے ناصرف خیبر پختونخوا بلکہ قبائلی اضلاع اور ملک کے دیگر حصوں سے بھی افراد خصوصاً لڑکیوں کو کام کرنے کا موقع دیا، چاہے نیوز رپورٹنگ ہو، ایڈیٹنگ ہو یا پھر ڈیجیٹل جرنلزم۔
نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانے میں بھی ٹی این این اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ عثمان کے مطابق وہ پشاور کے جس نیوز ادارے میں بھی جاتے ہیں تو انہیں ٹی این این کا تربیت یافتہ کوئی نا کوئی بندہ مل ہی جاتا ہے۔
ناہید جہانگیر کا تعلق شبقدر سے ہے جنہوں نے 2014 میں ٹی این این سے انٹرن شپ کی۔ اُس کے بعد 2017 میں بطور نیوز کوآرڈینیٹر ٹی این این میں کام کرتی رہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں اور نیوز ایڈیٹر سے پروگرام پروڈیوسر بنیں۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ناہید خیبر پختونخوا سے پہلی لڑکی تھیں جنہوں نے فیس بک لائیو کیا۔ ناہید اِس کا سارا کریڈیٹ ٹی این این کو دیتی ہیں کہ جس نے اُن کو اِس قابل بنایا کہ اُن میں چھپی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں اور 2019 میں نیشنل سطح پر انہوں نے اوور آل پاکستان انویسٹی گیٹیو رپورٹنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
ناہید جہانگیر پانچ سال تک ٹی این این کے ساتھ منسلک رہیں۔ 2021 میں پشاور کے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ میں انہیں ترجمان کی نوکری ملی اور آج وہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی اسسٹنٹ میڈیا مینجر ہیں۔
"آج بھی لوگ ملتے ہیں تو کہتے ہیں آپ ٹی این این کی ناہید ہو۔ مجھے یہ پہچان ٹی این این ہی نے دی ہے"۔
نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی خالدہ نیاز کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے اپنے کریئر کا آغاز ریڈیو پختونخوا، اور پھر ٹی این این سے کیا۔ خالدہ 10 سال ٹی این این سے وابستہ رہیں۔ اِس عرصے میں خالدہ نے بطور اسسٹنٹ پروڈیوسر، سب ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر کام کیا۔ اس کے علاوہ مختلف پروجیکٹس میں خواتین رپورٹرز اور بلاگرز کے ساتھ کورآڈی نیشن کی۔ اور یوں خالدہ اِس قابل ہوئیں کہ ٹی این این کے ساتھ ساتھ مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ فری لانس کام شروع کیا۔ خالدہ نے ہر بیٹ میں کام کیا اور بین الاقوامی سطح پر 3 ایوارڈز اپنے نام کیے۔ اُن کی سلیکشن جرمنی کے ادارے مشال ریڈیو میں ہوئی جو ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔
مردان کے افتخار خان نے بتایا کہ 2013 میں انہوں نے ٹی این این میں ملازمت شروع کی۔ وہ نیوز پروڈیوسر بنے۔ ایڈیٹنگ، فلم میکنگ، فیس بک لائیو؛ یہ تمام کام اُنہوں نے تقریباً 10 سالوں میں اس ادارے میں سیکھے۔ افتخار خان کو 2021 میں میر احمد صدیقی ایوارڈ سے نوازا گیا جو اُن کے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔ آج وہ بی بی سی پشتو سے منسلک ہیں۔