غیرملکی خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں متنازع شہریت بل کی منظوری کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں۔ نئی دہلی کی مرکزی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ سمیت ہزاروں افراد نے نئے قانون کے خلاف احتجاج کیا۔ دہلی پولیس کا کہنا تھا کہ اس قانون کے خلاف تیسرے روز ہونے والا پرامن مظاہرہ اتوار کی دوپہر میں افراتفری میں تبدیل ہو گیا اور 3 بسوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔
پولیس کی جانب سے مظاہرین پر آنسو گیس فائر کیے گئے جبکہ لاٹھی چارج سے 100 سے زائد طلبعلم زخمی ہوئے۔
Waseem Ahmed Khan, Chief Proctor, Jamia Millia Islamia University: Police have entered the campus by force, no permission was given. Our staff and students are being beaten up and forced to leave the campus. pic.twitter.com/VvkFWtia1G
— ANI (@ANI) December 15, 2019
مظاہروں کے منتظمین طلبہ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس وقت ہے اور ہم نے یہ برقرار رکھا کہ ہمارے مظاہرے پرامن اور تشدد سے پاک ہیں، ہم کسی بھی پارٹی کے تشدد میں ملوث ہونے کی مذمت کرتے ہیں۔
طلبہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں بتایا کہ پولیس کی جانب سے یونیورسٹی کی لائبریری میں آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے اور کیمپس کے تمام دروازوں کو سیل کرنے سے قبل مظاہرین پر تشدد بھی کیا، طلبہ کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا۔
واقعے سے متعلق شیئر کی گئی ویڈیوز میں یونیورسٹی کی لائبریری میں افراتفری کے مناظر کے ساتھ ساتھ پولیس کو آنسو گیس کے شیل فائر کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
Video from inside a washroom at Jamia University in Delhi. One student with a smashed eye, another unconscious on the floor, mirrors smashed by @DelhiPolice @CPDelhi, stop the violence. pic.twitter.com/LU4ZL0sHP9
— Neha Dixit (@nehadixit123) December 15, 2019
Video from Jamia Millia Islami's central library. Students claim Delhi Police is now inside the campus. #CABPolitics #CABProtests pic.twitter.com/JatMhr4loW
— Kunal Majumder (@kunalmajumder) December 15, 2019
جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیدار وسیم احمد خان کا کہنا تھا کہ پولیس زبردستی کیمپس میں داخل ہوئی، انہیں کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی جبکہ ہمارے اسٹاف اور طلبہ کو مارا گیا اور انہیں کیمپس چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ اور پولیس کے تصادم کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی احتجاج کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ اور پولیس میں بھی تصادم ہوا۔
Cops seen smashing bikes after protests erupt at Aligarh University https://t.co/t3x2D1d2j2 pic.twitter.com/OIowo9ES3l
— NDTV Videos (@ndtvvideos) December 15, 2019
#AMUStudents #AMU #AligarhMuslimUniversity
AMU is going through similar brutalities. Share and spread awareness about them too. They have a internet shutdown.And are way more helpless than us.We still got media coverage because we are in Delhi and have a network of universities. pic.twitter.com/iOmQxnCdLV
— Aligarh Muslim University Journal. (@AMUJournal) December 15, 2019
خیال رہے کہ بھارت میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ شہریت کے متنازع بل کے خلاف شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی ہے جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔
یاد رہے کہ بھارتیہ جنتہ پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے گذشتہ دنوں پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پڑوسی ممالک سے غیرقانونی طور پر بھارت آنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اس ترمیمی بل کے بعد بھارت میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟
شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔
اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔