ڈان اخبار کی ایک خبر کے مطابق ایف آئی اے نے اداکار علی ظفر کے ہتک عزت کیس میں ادکارہ میشا شفیع سمیت 8 ملزمان کو ملزم قرار دیا ہے۔ یہ کیس اداکار علی ظفر کی جانب سے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت ایف آئی اے میں دائر کیاگیا تھا۔
گزشتہ منگل کو علی ظفر کی درخواست پر ایف آئی اے کی جانب سے خصوصی عدالت میں ایک عبوری چالان پیش کیا گیا۔ ایف آئی اے کے چالان میں لکھا گیا ہے کہ اداکارہ میشا شفیع سمیت عفت عمر، ماہم جاوید، لینا غنی، فریحہ ایوب، سید فیضان رضا، حمنا رضا اور علی گل پیر کے خلاف اس کیس میں اورل اور ڈوکومینٹڈ ثبوت موصول ہوئے ہیں۔ تاہم درخواست گزار علی ظفر نے حمنا رضا کا نام واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا اس لئے ان کے خلاف مزید کاروائی نہیں کی گئی۔
نیا دور نے میشا شفیع کے قریبی ذرائع سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ میشا شفیع نےعلی ظفر کے خلاف جنسی ہراسانی سمیت ہتک عزت کا کیس بھی دائر کر رکھا تھا۔ تاہم، ان کے کیس کو ابھی عدالت میں سنا نہیں جارہا اسی لئے صرف یہ ایک کیس ہی میڈیا پر دکھایا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے کیس کی تفصیلات کورٹ کو فراہم کر سکتی ہے ’گلٹی‘ کا فیصلہ کورٹ نے کرنا ہے لہٰذا ڈان اخبار کی رپورٹنگ بھی جانبدرانہ ہے۔
دوسری طرف ڈان اخبار کو بھی سوشل میڈیا صارفین نے آڑھے ہاتھوں لیا جب ڈان اخبار نے اس خبر کی سرخی میں لفظ Guilty پر زور دیا بعد ازاں ترمیم کر کے لفظ vilification پر زور دیا گیا۔ حالانکہ کیس ابھی زیر سماعت ہے انکوائری رپورٹ میں کسی بھی مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
حبا اکبر نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر لکھا کہ ڈان اخبار نے ماضی میں بھی علی ظفر کے وکیلوں کی طرف سے کئی گئی ٹویٹس کو خبر بنا کر چلایا اور بغیر کسی فیصلے کے اپنا فیصلہ سناتے رہے۔
میشا شفیع کی لیگل ٹیم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایف آئی اے کی ایک نا مکمل تحقیقاتی رپورٹ اور ابتدائی چالان کے بعد بعض حلقوں نے اس رپورٹ کی غلط تشریح کر کے میشا شفیع کے خلاف ایک مہم شروع کر دی ہے۔ بار بار یہ غلطی کی جارہی اور جھوٹی خبر کو سوشل میڈیا پر شئیر کیا جارہا ہے ۔
میشا شفیع کی لیگل ٹیم کے مطابق یہ رپورٹنگ انتہائی گمراہ کن ہے کیونکہ کسی بھی عدالت نے یہ فیصلہ نہیں سنایا۔ حقیقت میں اس کیس کی سماعت ابھی تک شروع ہی نہیں ہوئی بلکہ ایف آئی اے کی جانب سے صرف ابتدائی اور نا مکمل عبوری چالان جمع کروایا گیا ہے۔ ہماری رائے میں یہ الزامات بھی قانون کی گہرائی سے غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ میشا شفیع کی ٹیم کے مطابق قانون کا بنیادی اصول ہے کہ تحقیقاتی ایجنسی میشا شفیع کے خلاف مقدمے کے دوران معقول شک سے بالاتر ہونا ثابت کرے جو کہ ابھی باقی ہے۔
یاد رہے کہ میشا شفیع دسمبر 2019 میں ایف آئی اے میں اپنے وکلاء ثاقب جیلانی اور نگہت داد کے ہمراہ پیش ہوئیں تھیں۔ ان کی طرف سے دو گواہ عفت عمر اور لینا غنی نے بھی گذشتہ دنوں ایف آئی اے کو اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔
واضح رہے کہ میشا شفیع اور علی ظفر کا کیس لاہور کی سیشن عدالت میں بھی زیر سماعت ہے۔