16 دسمبر 1971 وہ دن ہے جب کرہ ارض پر بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئے ملک کا ظہور ہوا۔ ایسا نہیں کہ ایک ہی رات میں اچانک یہ دیس دنیا کے نقشے پر اگ آیا تھا، 16 دسمبر تک پہنچنے میں مشرقی پاکستان کی سرزمین اور وہاں کے باسیوں کو خون کی ایک ہولناک ندی عبور کرنی پڑی تھی۔ اقوام عالم کا دستور بھی شاید یہی ہے، خون بہائے بغیر بھلا آزادی کون دیتا ہے؟ بنگالی عوام کے دلوں میں آزادی کی چنگاری ہمیشہ سے موجزن رہی تھی۔ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں بنگال سے تعلق رکھنے والے آزادی پسندوں کی جستجو صدیوں کا قصہ ہے۔ 1947 میں انگریزوں سے برصغیر کو تو آزادی مل گئی مگر بنگالی پھر بھی آزاد نہ ہو سکے۔ پاکستان کا حصہ بنے تو بہت جلد انہیں احساس ہونے لگا کہ چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی۔ آزادی کی یہ جستجو ایک بہتی ندی کے جیسی تھی جو صدیوں سے جاری تھی اور اتنے ہی عرصے سے خون آلود تھی۔ اس تلاطم خیز ندی میں تازہ طغیانی اس وقت وارد ہوئی جب 25 مارچ 1971 کو پاک فوج نے مشرقی پاکستان میں آپریشن 'سرچ لائٹ' کا آغاز کیا اور مقبول سیاسی قیادت کو جیلوں میں بند کر دیا۔
بنگالیوں کو مغربی پاکستان اور پاک فوج کے ساتھ مسئلہ کیا تھا؟
بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے مقتدر حلقوں اور پاک فوج سے متعلق بداعتمادی ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی۔ اس کا آغاز برصغیر کی آزادی کے ساتھ ہی ہو گیا تھا جب اردو پاکستان کی اکلوتی قومی زبان قرار پائی۔ مشرقی بنگال کی آبادی پورے مغربی پاکستان سے زیادہ تھی اور وہاں کی اکثریت کی زبان بنگلہ تھی۔ یہی زبان کا مسئلہ اس ٹیڑھی دیوار کی پہلی اینٹ ثابت ہوا اور اسی اینٹ نے مستقبل کی عمارت کا نقشہ طے کر دیا۔ بنگالیوں کے لیے یہ شناخت کا معاملہ تھا اور ان کے دلوں میں یہ احساس گھر کر گیا کہ انہیں ان کی شناخت سے محروم کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ آدھی سے زیادہ آبادی کو برابری کا حق دینے سے انکار کیا جاتا رہا۔ اکتوبر 1955 میں مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ملا کر ون یونٹ بنا دیا گیا اور یوں مغربی پاکستان کی 46 فیصد آبادی کو ون یونٹ کے پینترے سے مشرقی پاکستان کی 54 فیصد آبادی کے برابر قرار دے دیا گیا۔ یوں پارلیمنٹ میں آبادی کے حساب سے درست نمائندگی کا حق بنگالیوں سے چھین لیا گیا۔ پھر مشرقی پاکستان کے وسائل پر مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ وہاں سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ بھی مغربی پاکستان میں خرچ ہونے لگا۔ ناصرف بنگالیوں کی سماجی اور اقتصادی ترقی کو مسلسل نظرانداز کیا گیا بلکہ انہیں الٹا نکھٹو اور نکمے ہونے کے طعنے بھی دیے جاتے رہے۔
عوامی لیگ جب بنگالیوں کی اکثریت کی نمائندہ جماعت بن گئی اور دسمبر 1970 کے انتخابات میں اس نے مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کیا تو اقتدار اس کے حوالے کرنے پر لیت و لعل سے کام لیا گیا۔ عوام کی منشا سے روگردانی کرتے ہوئے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا۔ جو معاملات سیاسی فورمز پر طے کیے جا سکتے تھے، جن تنازعات کو مکالمہ کسی حد تک کم کر سکتا ہے، انہیں بندوق کے ساتھ حل کرنا فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حماقت تھی جس کا انہیں قطعاً کوئی اندازہ نہیں تھا۔ صدیق سالک نے اپنی کتاب ' میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا' میں پاک فوج کی اس حکمت عملی کا نقشہ کھینچا ہے جو ناکامی پر منتج ہوئی۔
حکمت عملی کے مسائل
25 مارچ کو ڈھاکہ میں 'آپریشن سرچ لائٹ' کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا اور 26 مارچ 1971 کو غیر ملکی نامہ نگاروں کو ڈھاکہ سے نکال دیا گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ان نمائندوں نے کلکتہ میں بیٹھ کر طرح طرح کی خبریں دینا شروع کر دیں جن کا لب لباب یہ تھا کہ پاک فوج بے گناہ اور نہتے بنگالی شہریوں پر تشدد کر رہی ہے۔ اس تناظر میں میجر صدیق سالک نے فون کی ہائی کمان کو تجویز پیش کی کہ ان نمائندوں کے ذریعے ہمیں یہ پیغام دینا چاہئیے کہ پاک فوج کا سامنا نہتے بنگالیوں کے بجائے باغی فوجیوں سے ہے جنہوں نے پاک فوج کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔ اس تجویز کو یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ اس طرح فوج کا ڈسپلن خراب ہونے کا پیغام دنیا کے سامنے جائے گا جو پاک فوج کے امیج کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔ چند ہفتے گزرے تو فوج کو اپنے اس مؤقف سے پیچھے ہٹنا پڑا اور ایک برطانوی نمائندے کے ذریعے دنیا کے سامنے یہ نکتہ نظر رکھا گیا کہ پاک فوج کا سامنا بنگالی فوج سے ہے جس نے بغاوت کر دی ہے۔ صدیق سالک کہتے ہیں اگر چند ہفتے ضائع کیے بغیر بروقت ان کی تجویز پر عمل کر لیا جاتا تو شاید صورت حال قدرے مختلف ہوتی۔
ڈھاکہ میں فوجی کارروائی سے چند روز بعد میجر جنرل راؤ فرمان کی ایک تجویز بھی رد کر دی گئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ باغی عناصر کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا جائے تاکہ وہ مستقل طور پر بھارت کی گرفت میں نہ چلے جائیں۔ مگر ایک سینیئر جرنیل نے انہیں یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ اب سیاست کا وقت گزر چکا ہے۔ اسی اعلیٰ فوجی قیادت کو پانچ ماہ بعد 4 ستمبر کو باغیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرنا پڑا مگر تب تک بقول شخصے پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی گزر چکا تھا۔ یہ باغی عناصر بھارت کی رہنمائی میں مکتی باہنی (سپاہِ آزادی) میں شامل ہو چکے تھے اور بعد میں جنگ کے دوران انہوں نے بھارتی فوج کا کام بہت آسان کر دیا تھا۔
مارچ 1971 میں لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان مشرقی پاکستان کے گورنر، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور کمانڈر ایسٹرن کمانڈ تھے۔ اسی دوران جی ایچ کیو نے نہ جانے کس کے مشورے پر ایک اور لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی کو مشرقی پاکستان روانہ کیا جنہوں نے 11 اپریل 1971 کو کمانڈر ایسٹرن کمانڈ کا چارج سنبھالا۔ جنرل نیازی نے ایک ماہ تک اسی فوجی حکمت عملی کو آگے بڑھایا جو جنرل ٹکا خان نے ترتیب دی تھی۔
چارج سنبھالنے کے بعد جنرل امیر عبداللہ نیازی بنگالی دانشوروں اور بنگالی ہندوؤں پر خوب برسے۔ ان کا خیال تھا کہ بنگالی قومیت کو پروان چڑھانے والے یہی لوگ تھے۔ ان کی معاونت کے لیے اپریل 1971 میں تین میجر جنرل اور دو فوجی ڈویژنز مشرقی پاکستان پہنچیں۔ ان جرنیلوں میں میجر جنرل رحیم، میجر جنرل شوکت رضا اور میجر جنرل نذر حسین شاہ شامل تھے۔ اس اضافی طاقت سے مشرقی پاکستان کے بڑے شہروں سے باغیوں کو بھگا دیا گیا اور زیادہ تر حصوں پر مئی کے وسط تک پاک فوج نے کنٹرول سنبھال لیا مگر یہ کنٹرول طاقت کے بل پر تھا۔ دلوں کو جیتنے اور ناراض بنگالیوں کو ساتھ ملانے کی صلاحیت فوج میں تھی اور نا ہی انہیں کبھی اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔
بنگالی دانشور اور معتبر لوگ مختلف خطوط پر سوچ رہے تھے اور پاک فوج کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ انہیں کیسے 'راہِ راست' پر لایا جائے۔ ان ناراض لوگوں سے بھی جس طرح کا سلوک کیا گیا وہ بھی پاک فوج کی ناکام حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس ناراض طبقے کی سوچ کی چند مثالیں دیکھیے؛
ریٹائرڈ چیف جسٹس سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش
صدیق سالک لکھتے ہیں کہ انہوں نے تجویز دی کہ دائیں بازو کی حلیف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے بیان بار بار چلانے سے بہتر ہے ایسی سرکردہ بنگالی شخصیات سے بات کی جائے جو سیاست دان نہ بھی ہوں مگر اپنے اپنے علاقے میں معتبر خیال کیے جاتے ہوں اور ان سے بیان دلوائے جائیں۔ تجویز مان لی گئی اور اس مہم کی ذمہ داری انہی کو سونپ دی گئی۔ یہ کام اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ سرکردہ بنگالی شخصیات آسانی سے تعاون پر تیار نہیں ہو رہی تھیں۔ اس سلسلے میں صدیق سالک نے مشرقی پاکستان کی عدالت عالیہ کے سابق چیف جسٹس مسٹر مرشد سے ملاقات کی اور ان سے تعاون کی درخواست کی۔ جسٹس مرشد خاموش ہو گئے اور ان سے سوچنے کے لیے کم از کم تین ماہ کا وقت مانگا تاکہ اس دوران وہ دیکھ سکیں کہ پاک فوج اپنا اقتدار قائم کرنے میں کامیاب ہو پائی ہے یا نہیں۔ صدیق سالک نے جب یہ رپورٹ آئندہ سرکاری اجلاس میں دی تو انٹیلی جنس سے ایک افسر بولے کہ ہم راتوں رات جسٹس مرشد کو اٹھا کر ان سے حسب منشا بیان لے لیں گے۔ اگرچہ ایسا نہیں کیا گیا مگر اس بیان سے پاکستانی انٹیلی جنس کی دھونس واضح ہو جاتی ہے۔
ریڈیو پاکستان پر ماتمی دھنیں چلانا
حکومتی اداروں میں تعینات بنگالی شخصیات کی سوچ بھی جسٹس مرشد سے مختلف نہیں تھی۔ ڈھاکہ میں 25 مارچ کی فوجی کارروائی کے بعد فیصلہ ہوا کہ ریڈیو پاکستان دوبارہ سے چلایا جائے تاکہ غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ کیا جا سکے اور مارشل لاء احکام عوام تک پہنچائے جا سکیں۔ میجر صدیق سالک نے ریڈیو حکام کو ہدایت دی کہ ریڈیو پر سازوں پر دھنیں نشر کی جائیں تاکہ لوگوں کو احساس ہو کہ ریڈیو پاکستان سے نشریات چل رہی ہے اور جب مارشل لاء انتظامیہ کی طرف سے کوئی ہدایت آئے تو موسیقی روک کر اسے عوام تک پہنچا دیا جائے۔ اس ہدایت کے بعد ریڈیو پاکستان نے ماتمی دھنیں چلانا شروع کر دیں۔ اس پر ریڈیو پاکستان حکام کو ٹوکا گیا اور انہیں صرف حمد، نعت اور منقبت وغیرہ نشر کرنے کی ہدایت دی گئی۔ اس کے بعد حکام یہ نغمہ بار بار نشر کرنے لگے؛
اے مولا علیؓ، اے شیرِ خدا
میری کشتی پار لگا دینا
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 'کشتی' شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ کا انتخابی نشان تھا۔
پاکستان ٹیلی وژن پر آزادی کے جذبات کی ترویج
اسی طرح جب ٹیلی وژن کو قیام پاکستان کا پس منظر اجاگر کرنے اور تحریک آزادی سے متعلق پروگرام ٹیلی کاسٹ کرنے کی ہدایت دی گئی تو انہوں نے پہلا ڈرامہ مولانا محمد علی جوہر پر نشر کیا۔ ڈرامے کے آغاز میں مولانا محمد علی جوہر کی تصویر دکھائی گئی مگر بعد کا سارا ڈرامہ تحریک آزادی کے فروغ کی نذر ہو گیا۔ کردار بار بار ایسے مکالمے بولتے تھے؛ آزادی کے جذبے کو دبایا نہیں جا سکتا، آزادی قربانیاں مانگتی ہے، آزادی کے لیے ماؤں کو بچے اور بہنوں کو بھائی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہئیے۔
عملِ صفائی یا Sweep Operation
مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اندازہ لگایا کہ عوام کے دلوں میں علیحدگی پسندگی اور نفرت کے بیچ بونے میں دانشور طبقے کا مرکزی کردار ہے۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ عام بنگالی لوگوں کو یہی طبقہ بہکا رہا ہے چنانچہ طاقت کے منہ زور گھوڑے کا رخ ان بنگالی دانشوروں کی جانب موڑ دیا گیا۔ اس کے لیے دانشوروں کی فہرستیں بنوائی گئیں۔ عوامی لیگ سے انتخابی میدان میں شکست سے دوچار ہونے والی دائیں بازو کی جماعتیں پاک فوج کی حلیف بن گئیں۔ ان میں کونسل مسلم لیگ، کنونشن مسلم لیگ، قیوم مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور نظام اسلام پارٹی نمایاں جماعتیں تھیں۔ ان کے علاوہ مقامی بہاری کمیونٹی نے بھی پاک فوج کا ساتھ دیا۔ ان لوگوں کی مدد سے یہ فہرستیں بنائی گئیں اور بے رحم انداز میں بنگالی دانشوروں کو ایک ایک کر کے قتل کیا گیا۔ ان میں شاعر، ادیب، استاد، قانون دان، جج، وکیل، ڈرامہ نگار، صحافی، فنکار اور دیگر اسی قبیل کے لوگ شامل تھے۔ اس آپریشن کو 'عملِ صفائی' یعنی Sweep Operation کا نام دیا گیا جو پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ یہ کام جن لوگوں کے سپرد تھا وہ بنگال اور بنگلہ زبان سے ناواقف تھے اور انہیں مطلوبہ لوگوں کی پہچان کے لیے مقامی بنگالیوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ مقامی بنگالی ان حکام سے پورا تعاون کرنے پر تیار نہیں تھے۔
پاک فوج کی حلیف جماعتوں کے کارکنان باغیوں کے ٹھکانوں کی بھی نشاندہی کرتے اور پاک فوج ان کے خلاف آپریشن کرتی۔ اس آپریشن کی آڑ میں حلیف جماعتوں نے کئی ذاتی دشمنوں کو بھی باغی قرار دیا اور یوں کئی بے گناہ لوگ بھی ان آپریشنز میں مارے گئے۔ ایسے ہی ایک آپریشن کا قصہ صدیق سالک بیان کرتے ہیں کہ پاک فوج کو دائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما نے اطلاع دی کہ کئی باغی ڈھاکہ شہر کے نواح میں گنگا کے پار واقع گاؤں کرانی گنج میں چھپے ہوئے ہیں اور بہت جلد ڈھاکہ شہر پر حملہ کرنے والے ہیں۔ پاک فوج نے مزید تحقیق کیے بغیر اس گاؤں پر علی الصبح زمینی توپوں، مشین گن توپوں اور فوجی دستے کے ساتھ دھاوا بول دیا۔ تھوڑی دیر بعد کنٹرول روم کو یہ خبر موصول ہو گئی کہ ہماری بہادر فوج نے کسی جانی نقصان کے بغیر باغیوں کے کیمپ پر قبضہ کر لیا ہے۔
صدیق سالک لکھتے ہیں کہ شام کو ان کی ملاقات اس کارروائی کے انچارج فوجی افسر سے ہوئی جنہوں نے نہایت افسردگی کے عالم میں بتایا کہ ہمیں غلط اطلاع موصول ہوئی تھی، کرانی گنج ایک غریب قصبہ ہے جس میں سوائے عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کے کوئی نہیں تھا جنہیں غلط خبر پر بھون کر رکھ دیا گیا ہے۔ اس افسر نے اعتراف کیا کہ اس سانحے کا بوجھ وہ عمر بھر اپنے ضمیر پر لیے پھریں گے۔
پاک فوج کے اس آپریشن کے دوران بے شمار بنگالی شہری نقل مکانی کر کے بھارت چلے گئے۔ جو لوگ نقل مکانی نہیں کر سکے ان میں سے بیش تر نے عافیت اسی میں جانی کہ انہیں کسی نہ کسی طرح پاک فوج کے کسی باوردی افسر کی 'سرپرستی' حاصل ہو جائے کیونکہ ماحول ایسا تھا کہ اس وقت فوجی وردی اور پشتو یا پنجابی بولی ذاتی حفاظت اور بقا کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ صدیق سالک لکھتے ہیں کہ ایسے بنگالی گھرانے جہاں خوب رو نوجوان خواتین موجود تھیں، انہیں بیک وقت پاک فوج کے کئی کئی افسران کی 'سرپرستی' حاصل ہو گئی۔
اسی دوران صدیق سالک کو بھی ایک دولت مند بنگالی خاندان میں متعارف کروایا گیا۔ گھر کا سربراہ ایک مقامی اخبار کا ایڈیٹر تھا۔ ان کے نواحی گھر میں ایک روز قبل 'عملِ صفائی' کے تحت کارروائی ہوئی تھی جس سے گھبرا کر انہوں نے باوردی شخص کو گھر بلانے کا انتظام کیا تھا۔ کچھ دیر گھر کا سربراہ اور اس کی خوبرو بیوی دونوں صدیق سالک کے ہمراہ بیٹھے رہے جس کے بعد ایڈیٹر کوئی بہانہ بنا کر گھر سے چلا گیا اور بیوی کو فوجی افسر کے ساتھ اکیلا چھوڑ گیا۔
اس عورت نے بعد میں صدیق سالک کے سامنے پاک فوج کے ساتھ اپنے ابلتے ہوئے غصے کا ان الفاظ میں اظہار کیا کہ مجھے اس وردی کے تار تار سے نفرت ہے کیونکہ تمہارا تعلق بھی انہی درندوں کے قبیلے سے ہے وحشی پن جن کے چہروں پہ رقم ہے۔ تم لوگوں کو اپنی کرتوتوں پر شرم آنی چاہئیے۔ صدیق سالک یہ سن کر سخت نادم ہوئے اور بوجھل قدموں کے ساتھ وہاں سے لوٹ آئے۔
کہاوت ہے کہ اگر آپ ہاتھ میں ہتھوڑی لے کر نکلیں گے تو ہر مسئلہ کیل جیسا ہی نظر آئے گا۔ پاک فوج کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ ہاتھوں میں بندوق ہو تو معاملات درست کرنے کے لیے بات چیت، مذاکرات اور اعتماد سازی جیسے طریقے فرسودہ نظر آتے ہیں۔ تب ہر مسئلے اور ہر اختلاف کا جواب بندوق کی گولی سے دیا جاتا ہے۔ اسی گولی نے بنگالیوں کے دلوں میں پیدا ہونے والی بداعتمادی کو نفرت کے کینسر میں بدل دیا اور 9 ماہ تک خون کی ندیا میں غوطے کھانے کے بعد 16 دسمبر 1971 کو بھارت کی فوجی حمایت کے ساتھ مشرقی پاکستان بالآخر بنگلہ دیش بننے میں کامیاب ہو گیا۔