وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض پیر زادہ نے کہا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے واقعات رونما ہونے میں بھارت کا کردار ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی کمیٹی چیئرپرسن مہرین رزاق بھٹو کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا جس میں پاکستان میں ہونے والے حالیہ توہین مذہب کے واقعات پر تبادلہ خیال ہوا۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض پیر زادہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جیلوں میں بنیادی انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے توہین مذہب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی بارڈر کے ملحقہ علاقوں میں مذہبی منافرت کے معاملات میں بھارت مداخلت کرتا ہے۔ جب بھی پاکستان میں کوئی وفد آتا ہے تو اس کی آمد کے قریب توہین مذہب کا معاملہ رچایا جاتا ہے۔
ریاض پیر زادہ کے ریمارکس پر تبصرہ کرتے ہوئے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ توہین مذہب کے ہر معاملے میں بیرونی ہاتھ کا الزام لگانا درست نہیں ہے.
پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی نوید عامر جیوا نی کہا کہ کیا ہماری باڈر مینجمنٹ کمزور ہو گئی ہے؟ کیا ہمارے اداروں کی رٹ کمزور ہو گئی ہے؟ اس کی طرح کابیان مناسب نہیں ہے۔ وزیر صاحب اپنے بیان پر نظر ثانی کریں اور ان معاملات کا اعتراف کریں۔
اس پر ریاض پیر زادہ نے جواب دیا کہ آپ ممبر ہیں، آپ بھی اعتراف کریں۔ صرف میری ذمہ داری نہیں ہے۔
خواجہ سراؤں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے بریفننگ دی گئی۔ جس میں کہا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں خواجہ سراؤں کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کے لیے شیلٹر ہوم قائم کیا جا رہا ہے۔ ٹرانس جینڈرز کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سہ ماہی 7 ہزار روپے دیے جا رہے ہیں۔ ٹرانس جینڈرز کے لئے مختلف مقام پر 13 ٹریننگ سینٹرز موجود ہیں۔
قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی کمیٹی چیئرپرسن مہرین رزاق بھٹو نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو نادرا کے ذریعے ٹرانس جینڈرز کی تعداد معلوم ہوئی ہے؟ جس پر جواب دیا گیا کہ جی نادرا کے ذریعے تعداد معلوم ہوئی۔ نادرا ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے۔
بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ اسلام آباد میں ٹرانس جینڈرز کی سب سے زیادہ تعداد نورپور شاہاں میں ہے۔ نورپور شاہاں میں 150 کے قریب ٹرانس جینڈرز رہائش پذیر ہیں۔
واضح رہے کہ 11 فروری کو ننکانہ صاحب میں مشتعل افراد کی جانب سے توہین مذہب کے مبینہ ملزم کو تھانے سے نکال کر تشدد کر کے ہلاک کردیا گیا۔
یہ افسوسناک واقعہ ننکانہ صاحب کے علاقے وار برٹن میں پیش آیا جہاں ملزم توہین مذہب اور سابقہ بیوی کی تصاویر لگا کر جادو ٹونے کے الزام میں تھانہ وار برٹن میں بند تھا۔ 2 سال جیل کاٹنے کے بعد واپس آیا تھا۔ مشتعل افراد نے تھانے میں بند ملزم کو نکال کر ہلاک کر دیا جبکہ حملے پر تھانے کا ایس ایچ او دیگر ملازمین سمیت جان بچا کر بھاگ نکلا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے تھانہ واربرٹن واقعےکی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئےکہا ہےکہ پولیس نے پرتشدد ہجوم کو کیوں نہ روکا؟ قانون کی حاکمیت کو یقینی بنانا چاہیے۔ کسی کو قانون پر اثر انداز ہونےکی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
وزیراعظم کا کہنا ہےکہ امن و امان کے ذمہ دار اداروں کی پہلی ترجیح امن ہی ہے۔ امن وامان کو ہر صورت مقدم رہنا چاہیے۔