Get Alerts

سوشل میڈیا پر مریم نواز مقبول مگر عوام میں نوازشریف کا متبادل شہباز شریف ہے

سوشل میڈیا پر مریم نواز مقبول مگر عوام میں نوازشریف کا متبادل شہباز شریف ہے
گیلپ اینڈ گیلانی پاکستان کی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے 49 فیصد ووٹرز شہباز شریف کو نواز شریف کا متبادل سمجھتے ہیں۔

سروے میں ملک کے چاروں صوبوں کے شہری اور دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلم لیگ ن کے 1225 ووٹرز سے سوال پوچھا گیا تھا کہ نواز شریف کی غیر موجودگی میں کون سے رہنما میں مسلم لیگ ن کی قیادت کرنے کی اہلیت ہے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے 49 فیصد ووٹرز نے شہباز شریف کے حق میں ووٹ دیا۔ حیرت انگیز طور پر صرف 12 فیصد ووٹرز نے مریم نواز شریف کو اس منصب کا اہل سمجھا جبکہ 3 فیصد اور 2 فیصد ووٹرز نے بالترتیب حمزہ شہباز اور شاہد خاقان عباسی کے حق میں ووٹ دیا۔ اس سروے سے جو تین اہم ترین حقائق سامنے آتے ہیں، وہ درجِ ذیل ہیں:

  • سوشل میڈیا، خصوصاً ٹوئٹر، پر تمام تر ہائپ کے باوجود مسلم لیگ نواز کے اصل ووٹرز میں سے صرف 12 فیصد مریم نواز کو پارٹی کا مستقبل سمجھتے ہیں۔

  • پارٹی کے سربراہ نواز شریف ضرور ہیں لیکن ان کے بھائی شہباز شریف کی پنجاب میں تیزی سے پراجیکٹس مکمل کرنے کی اہلیت جماعت کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

  • 14 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کے علاوہ کوئی بھی شخص پارٹی کی قیادت کا اہل نہیں جب کہ 19 فیصد نے اس سلسلے میں کوئی خیال ظاہر نہیں کیا۔


سب سے پہلا سوال مریم نواز شریف کے مستقبل کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ نواز ملک کی دیگر جماعتوں ہی کی طرح ایک موروثی جماعت ہے۔ نواز شریف اس کے سربراہ ہیں جب کہ ان کے بھائی ان کے بعد جماعت کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ تیسرے نمبر پر مریم نواز آتی ہیں، جو کہ موجودہ سربراہ اور جماعت کے بانی کی دخترِ محترم ہیں۔ مریم نواز نے عملی سیاست میں قدم 2012 میں رکھا جب انہوں نے مختلف تقریبات میں مسلم لیگ نواز کی نمائندگی شروع کی۔ 2013 انتخابات کے بعد انہیں وزیر اعظم یوتھ سکیم کا سربراہ بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مسلم لیگ نواز کی سوشل میڈیا مہم بھی اپنے ذمے لے لی۔ 2016 میں ڈان لیکس سامنے آئیں تو مریم نواز پر الزام لگایا گیا کہ یہ خبر ایک ایسے میڈیا سیل سے جاری کی گئی تھی جسے مریم نواز چلاتی ہیں۔ پاناما کیس میں نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو این اے 120 میں ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز نے ان کی خالی ہوئی نشست پر انتخاب لڑا۔ تاہم، کلثوم نواز اس وقت سخت علالت کا شکار تھیں اور اس حلقے میں ان کی انتخابی مہم کی ذمہ داری ایک بار پھر مریم نواز کو سونپی گئی۔ اس مرتبہ بھی مسلم لیگ نے انتخاب جیت لیا۔

تاہم، پاناما کیس میں مریم نواز نہ صرف مجرم قرار دے دی گئیں بلکہ انہیں دس سال کے لئے نااہل بھی قرار دے دیا گیا، گو یہ سزا فی الحال معطل ہے اور ان کا مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس وقت بھی بھی جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کی تمام تر مشکلات کا باعث ان کی بیٹی ہیں کیونکہ مریم کی باز باتوں سے مقتدر حلقے خوش نہیں۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ آج نواز شریف جس بھی حال میں ہے، صرف اپنی بیٹی کی وجہ سے ہے۔

ٹوئٹر پر مسلم لیگی کارکنان نے حال ہی میں آرمی ایکٹ میں ترمیم پر پارٹی کے یکایک حمایت پر تیار ہو جانے کے بعد شہباز شریف اور خواجہ آصف کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ان پر خوب تنقید کی گئی۔ اور لوگوں کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ مریم نواز اور نواز شریف کی مرضی کے خلاف کیا گیا ہے۔ تاہم، یہ سروے رپورٹ واضح کرتی ہے کہ حقیقت میں مریم نواز کی مقبولیت سوشل میڈیا کی حد تک تو ہے لیکن گراؤنڈ پر اصل مقبولیت کے حوالے سے انہیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

نواز شریف کے متبادل کے طور پر اس وقت سب سے زیادہ حمایت ان کے بھائی شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے۔ شہباز شریف کی سیاست کی لاکھ مخالفت کی جائے، جس چیز کے معترف ان کے مخالفین بھی ہیں، وہ ان کی ڈلیور کرنے کی صلاحیت ہے۔ 2008 سے 2018 کے درمیان وہ دس سال پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے اور اس دوران انہوں نے صوبے بھر میں سڑکوں کا جال بچھا دیا۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ گذشتہ دورِ حکومت میں ملک بھر میں لگنے والے بجلی کے پراجیکٹس میں بھی شہباز شریف کا کردار کلیدی تھا۔ ترقیاتی پراجیکٹس کو ریکارڈ مدت میں مکمل کرنے کی صلاحیت نے پنجاب کو دیگر صوبوں کے لئے کارکردگی کا ایک بنچ مارک بنایا اور یہ حقیقت ہے کہ اس بنچ مارک تک تاحال کوئی اور وزیر اعلیٰ نہیں پہنچ سکا ہے۔ شہباز شریف کو ایک بہترین منتظم سمجھا جاتا ہے اور بیوروکریسی سے کام لینے کے حوالے سے بھی ان کی تعریف کی جاتی ہے۔ اربن ٹرانسپورٹ کے منصوبوں نے دیگر صوبوں کو بھی اس سمت میں کام کرنے کی طرف مائل کیا۔ عموماً شہباز شریف پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ ان کی توجہ تعلیم اور صحت پر نہیں رہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں شعبوں میں بھی ان کے دورِ حکومت میں خاطر خواہ بہتری آئی۔

تاہم، جب ہم دیکھتے ہیں کہ 14 فیصد ووٹر سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کے علاوہ کوئی پارٹی قیادت کا اہل نہیں اور 19 فیصد اس حوالے سے کوئی رائے نہیں رکھتے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ 1225 میں سے 380 ووٹرز ایسے ہیں جن کے نزدیک نواز شریف کی غیر موجودگی میں جماعت لاوارث ہو جائے گی۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں اور اگر شخصیات سے باہر نکل بھی جائیں تو چند خاندانوں کے گرد گھومتی ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی بھلائی نہیں جا سکتی کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے شہباز شریف پارٹی کے صدر بنا دیے گئے تھے لیکن نواز شریف نے بدستور مریم نواز کے ساتھ ملک بھر میں جلسے جلوس جاری رکھے۔ پر جونہی بیگم کلثوم نواز کی علالت کے باعث نواز شریف اور مریم لندن تشریف لے گئے، اگلے دو ماہ کے اندر اندر پارٹی تتر بتر ہوتی دکھائی دینے لگی۔ 2018 میں مسلم لیگ نواز تمام تر کارکردگی کے دعوؤں کے باوجود پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ آنے والے دور میں سوشل میڈیا ہی عوامی رائے سازی کا اہم ترین ذریعہ ہوگا، اور یہ اصول بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ کسی بھی جماعت کی اصل اساس اس کا نظریہ ہوتا ہے۔ محض کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ملتا تو ق لیگ نے بھی پنجاب میں بری حکومت نہیں کی تھی۔ لیکن پانچ مرتبہ، دس مرتبہ اور تاحیات باوردی صدر منتخب کروانے کے نعرے انہیں لے ڈوبے۔ مسلم لیگ نواز کی زبان میں بات کی جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ’خدمت کو ووٹ دو‘ اور ’ووٹ کو عزت دو‘ دونوں ہی نعرے ایک دوسرے کے بنا ادھورے ہیں۔