نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک نے اعتراف کیا تھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان سے کہا کہ نواز شریف کو سزا دینی ہے اور سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن جو نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس میں مانیٹرنگ جج بھی تھے، انہوں نے متعدد بار بلا کر پوچھا کہ کیس میں کیا پیش رفت ہوئی ہے، ہم نے نواز شریف کو سزا دینی ہے۔ یہ کہنا ہے نواز شریف کے قریبی ساتھی ناصر بٹ کا۔
یوٹیوب پر پروگرام 'ٹاک شاک' میں صحافی اعزاز سید اور آصف بشیر چوہدری کے ساتھ گفتگو میں مسلم لیگ ن کے رہنما ناصر بٹ کا کہنا تھا کہ جس میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کی بنیاد پر نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی ڈاکٹر یاسمین راشد بھی اس بورڈ کا حصہ تھیں اور یہ بات انہوں نے خود کہی تھی کہ نواز شریف کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ اگر ان کا لندن یا کہیں اور جا کر علاج نہ کروایا گیا تو ان کا بچنا مشکل ہے۔ لندن میں ابتدائی ٹیسٹوں کے بعد ڈاکٹروں نے انکشاف کیا کہ انہیں کھانے میں کوئی مضر صحت چیز دی جا رہی تھی۔ اگر نواز شریف پاکستان میں رہتے تو ان لوگوں نے نواز شریف کو مار دینا تھا۔ نواز شریف کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں ہوئی تھی کہ علاج کے لیے جانے دو تو ایکسٹینشن کا بل پاس کروا دیں گے۔
ناصر بٹ کے مطابق نواز شریف نے ہمیشہ کہا کہ انہیں 'ووٹ کو عزت دو' کے بیانیے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ نے نکالا۔ نکالے جانے کے بعد نواز شریف نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں عوام کو بتاؤں گا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ نواز شریف نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل فیض حمید، ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ اور عمران خان سمیت سب کا نام لیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض اس سب کے ذمہ دار ہیں۔
ناصر بٹ کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کہہ رہے تھے کہ میرے اوپر سپریم کورٹ کے ایک مانیٹرنگ جج اعجاز الاحسن کا پریشر تھا۔ وہ ہر تیسرے دن مجھے بلاتے تھے اور کیس کی پیشرفت بارے پوچھتے تھے۔ وہ یہ باور کرواتے تھے کہ نواز شریف کو سزا دینی ہے۔ میں انہیں کہتا تھا کہ اس کیس میں کچھ نہیں ہے۔ لیکن وہ یہی کہتے تھے کہ نواز شریف کو سزا دینی ہے۔ اعجاز الاحسن اگر مستعفی ہو کر نہ جاتے تو اس ویڈیو کی بنیاد پر ان کے خلاف بھی ریفرنس آنا چاہیے تھا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ناصر بٹ نے بتایا کہ جج ارشد ملک سے جب ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے نواز شریف کو سزا سنا کر ان سے زیادتی کی ہے، مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی، آپ میری نواز شریف سے ملاقات کروا دیں تاکہ میں انہیں بتا سکوں کہ حقیقت میں کیا ہوا تھا۔ میں نے نواز شریف سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ارشد ملک کو بولو اگر دل میں ڈر ہے تو اللہ سے معافی مانگے، میں نے مل کر کیا کرنا ہے۔ بعد میں نواز شریف ملاقات پر راضی ہوئے تو میں جج ارشد ملک کو لاہور لے کر گیا۔ ملاقات میں ارشد ملک نے نواز شریف کو بتایا کہ مانیٹرنگ جج اعجاز الاحسن اور چیف جسٹس ثاقب نثار کہتے تھے کہ ملک حالت جنگ میں ہے، نواز شریف کو سزا سناؤ۔
ناصر بٹ نے بتایا کہ آصف سعید کھوسہ، ثاقب نثار سب اس سازش کا حصہ تھے۔ جو ویڈیو میں نے بنائی تھی وہ ویڈیو کے متن کی طرف نہیں آئے کیونکہ ان کے اپنے چہرے بے نقاب ہو رہے تھے بلکہ ان کی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ ویڈیو کس نے بنائی۔ آصف سعید کھوسہ ثاقب نثار کو بچاتے رہے۔ جب بھی نواز شریف یا شریف فیملی کا کوئی کیس سماعت کے لیے لگا تو اس بنچ میں اعجازالاحسن لازمی شامل ہوتے تھے۔ بنچ میں موجودگی پر اعتراض کے باوجود بنچ میں بیٹھتے تھے۔ آج اس سب سے گھبرا کر اعجاز الاحسن استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے ہیں۔
مریم نواز کو آئی ایس آئی کے افسر عرفان ملک کی جانب سے ملنے والی مبینہ دھمکی کے حوالے سے ناصر بٹ نے کہا کہ نواز شریف نے ایک ٹویٹ کی کہ اگر میری بیٹی جو قوم کی بھی بیٹی ہے اس کو کچھ ہوا تو یہ تین لوگ ذمہ دار ہوں گے۔ اس پر سب کو فکر پڑ گئی۔ لندن میں عرفان ملک نے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ میرا نام استعمال ہوا ہے، میں ایسا ہوں اور نہ ہی میں نے ایسا کہا ہے۔ بعد عرفان ملک سائیڈ پر ہو گئے تھے کیونکہ ان کا نام بیچ میں آ رہا تھا۔ لیکن اتنی بڑے دھمکی سے نواز شریف یا مریم نواز گھبرائے نہیں۔
اعزاز سید نے پوچھا کہ جنرل باجوہ اور فیض حمید نے ہی نواز شریف کو بیرون ملک بھجوایا، وہ نہ چاہتے تو میاں صاحب کیسے جا سکتے تھے تو ناصر بٹ نے کہا کہ عمران خان کے ڈاکٹر راشد نے ان کو بتایا تھا کہ نواز شریف کی حالت بہت خراب ہے، اگر علاج کے لیے باہر نہیں جانے دیں گے اور ان کو کچھ ہو گیا تو عوام نہیں چھوڑیں گے۔ تو اس سے گھبرا کر انہوں نے نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دے دی۔
وزارت عظمیٰ کے لیے شہباز شریف کے انتخاب کے حوالے سے ن لیگی رہنما نے بتایا کہ جب نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کی منظوری دی تو انہوں نے کہا کہ چند دنوں بعد اسمبلیاں تحلیل کر کے انتخابات کروا لیں گے۔ انہوں نے شہباز شریف کو تقریر بھی لکھ کر دی کہ قوم کو پیغام دیں کہ اسمبلیاں تحلیل کر کے انتخابات کروائیں گے۔ لیکن جب عمران خان نے عوام کو اسلام آباد لانے کا اعلان کر دیا تو نواز شریف نے شہباز شریف کو اسمبلیاں تحلیل کرنے سے روک دیا کہ عمران خان کی دھمکی پر اسمبلیاں نہیں توڑنی۔
نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی سینیارٹی کے مطابق ہوئی۔ اس بات میں حقیقت نہیں کہ شہباز شریف جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے لیے لندن گئے تھے کیونکہ نواز شریف کسی کی توسیع کے حق میں نہیں تھے۔ جنرل باجوہ نے کہلوایا کہ توسیع نہیں دیں گے تو مارشل لاء لگا دوں گا تو اس پر نواز شریف نے کہا تھا کہ دیر نہ کریں، لگانا ہے تو ابھی لگا دیں۔