پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر 9 مئی واقعات سے اظہار لاتعلقی کر دیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کے دوران ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی پر مجھے نہیں بلکہ ان کو مجھ سے معافی مانگنی ہو گی۔ 8 گھنٹے جاری رہنے والی اس سماعت کے دوران عمران خان کے وکلا کے علاوہ پی ٹی آئی قیادت میں سے کوئی بھی رہنما کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھا۔
دو روز قبل لاہور پولیس نے اڈیالا جیل جا کر 9 مئی کے 12 مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری ڈالی تھی جس کے بعد گذشتہ روز عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج خالد ارشد نے کیس کی سماعت کی۔ یہ 9 مئی حملوں سے متعلق 12 مقدمات میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کا کیس تھا۔ جسمانی ریمانڈ کے لیے ملزم کی عدالت میں پیشی لازمی ہوتی ہے، اگر پیش نہ ہو سکے تو ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت ہوتی ہے۔ ساڑھے تین بجے کے قریب کارروائی کا آغاز ہوا تو حیران کن طور پر پی ٹی آئی کی مرکزی اور صوبائی قیادت میں سے ایک بھی رہنما کمرہ عدالت میں موجود نہ تھا۔ بس موجود تھے تو ایڈووکیٹ اظہر صدیق اور ایڈووکیٹ عثمان ریاض۔ اگر یہ دونوں بھی نہ ہوتے تو شاید یہ کارروائی 20 منٹ سے زیادہ نہ چلتی۔
ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے دلائل کا آغاز کیا اور شروع ہی اس بات سے کیا کہ عمران خان کو عدالت میں پیش کریں۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ سکیورٹی خدشات ہیں، ہم انہیں پیش نہیں کر سکتے ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری لگوائیں۔ اب معزز جج نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آئے اور ریڈر سے کہا کہ ویڈیو کال ملائیں۔ اوپن عدالت میں ویڈیو کال ملائی گئی تو عمران خان نے خود فون اٹھایا۔ معزز جج نے 9 مئی کے 12 کیسز میں جسمانی ریمانڈ کی درخواست سے متعلق عمران خان کو بتایا۔ عمران خان نے پوچھا کہ میں کچھ کہہ سکتا ہوں؟ اس کے ساتھ ہی سگنل کا مسئلہ پیدا ہونے کے باعث کال بند ہو گئی۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
معزز جج کے حکم پر دوبارہ کال ملائی گئی تو عمران خان نے کہا کہ یہ کہتے ہیں 9 مئی کے واقعات کی معافی مانگو، معافی مجھے نہیں بلکہ ان کو مانگنی ہو گی۔ پھر انہوں نے ایک فوجی شخصیت کا نام لے کر کہا کہ گوجرانوالہ میں جب مجھ پر حملہ ہوا تو اس کی ایف آئی آر درج نہیں ہونے دی گئی اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی غائب کر دی گئیں۔ عمران خان نے کہا کہ میری باتوں کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ عمران خان نے کہا کہ یہ مجھے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہے ہیں، 9 مئی کو پُرامن احتجاج کا کہا تھا، میرا 9 مئی سے کیا تعلق ہے؟ 9 مئی واقعات کی آزادانہ انکوائری کسی نے نہیں کروائی۔ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کی تھی کہ آزادانہ انکوائری ہونی چاہیے۔
اتنی کارروائی کے بعد ایک مرتبہ پھر کال بند ہو گئی۔ اس کے بعد اڈیالہ سے خود ہی کال آ گئی اور وہ کال عمران خان کو ملا کر دی گئی تھی۔ اب جج صاحب نے عمران خان سے ان کی صحت سے متعلق پوچھا تو عمران خان نے کہا کہ الحمد للّٰہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ جج صاحب نے کہا کہ آپ کی باتوں کو ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے۔ پھر جج صاحب نے عمران خان کو کہا کہ کمرہ عدالت میں اظہر صدیق صاحب آپ کی جانب سے پیش ہو رہے ہیں، آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟ عمران خان نے بلند آواز میں کہا کہ مجھے اظہر صدیق پر اعتماد ہے، کوئی اعتراض نہیں۔ پھر اظہر صدیق نے جج صاحب سے پوچھا کہ عمران خان کیسے لگ رہے ہیں تو جج صاحب نے کہا کہ ماشاء اللہ عمران خان ہشاش بشاش تھے اور گفتگو کے دوران وہ کھڑے بھی ہوئے اور بیٹھے بھی۔ اس پر وکلا نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کال بند ہو گئی۔
پھر اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دینے شروع کیے اور سب سے پہلے واٹس ایپ کے ذریعہ عمران خان کی حاضری کو چیلنج کر دیا۔ یہاں سے اصل کہانی شروع ہوئی تو جج صاحب نے بھی سرکاری وکیل سے کہا کہ بغیر نوٹیفکیشن کے ایسی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ اس پر رات گئے حکومت کی جانب سے سکیورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اور عدالت نے عمران خان کا 10 روز کا ریمانڈ دے دیا۔ یہاں حیران کن بات یہ ہے کہ لگ بھگ 8 گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ ٹیلی ویژن چینلز پر نشر ہوتی رہی لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کی مرکزی یا مقامی قیادت میں سے کوئی بھی رہنما کمرہ عدالت میں نہیں پہنچا۔