سکرین پر جذبات، جنون اور غصے سے پاگل ایک منتشر ہجوم دکھائی دیتا ہے جو پاکستان کے طاقتور ترین ادارے جی ایچ کیو پر حملہ آور ہے۔ تھئیٹر کے اس شور انگیز کھیل کو کہیں سے بھی دیکھیں، کوئی پابندی نہیں۔ کھیل شروع ہوتا ہے 9 مئی کو۔ شام کا وقت ہے۔ توڑ پھوڑ پر مائل ایک لڑکا جس کا غصہ، اس کی نفرت اور بیزاری حیران کن نہیں، پھٹ پڑا ہے، غصے پر قابو نہیں رکھ پا رہا۔ داخلی دروازے کے سامنے، سڑک پر پڑے ہوئے، لوگو کو روند رہا ہے۔ اس سے پہلے یہ لوگو دروازوں کے بیچ کھڑی دیوار پر آویزاں تھا۔ ایک اور ناراض لڑکا پہلے ہی ڈنڈے کے وار پہ وار کر کے اس لوگو کو اکھاڑ کر پھینک چکا تھا۔ اب طاقت، رعب، بھرم اور دبدبہ دار آہنی دیوار میں آرپار سا سوراخ دیکھا جا سکتا ہے۔
المیہ پھیل چکا ہے۔ آڈیٹوریم میں بیٹھے ہر تماشا گر کی یکسوئی بتاتی ہے کہ وہ کھیل میں گم ہو چکا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت، پس پردہ گلوگیر آواز ہمیں بتاتی ہے، مادام تساؤ میوزیم کی تخلیقات کی مومی ناک سے بھی نازک تر ہے۔ کھیل میں ہر گڑبڑ کی ضرب اس پر پڑتی ہے، پاکستان کی عورتوں کی طرح۔ 9 مئی کی شام سیاسی تاریخ کے دیگر المیوں میں سے محض ایک تازہ ٹریجڈی تھی جس نے قد آدم آئینے میں بلاامتیاز، ڈراؤنی چیزیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ نمائش میں جمہوریت کا جو بت رکھا گیا تھا، وہ پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اس کے خوش ذوق لباس میں پیوند پڑنے لگے ہیں۔ بعض پُتلیوں کا کردار کم ہو گیا ہے لہٰذا مینجرز نے انہیں گودام میں رکھ لیا ہے۔ اب براہ راست مول تول کرنے کا سیدھا سادہ، پرانا طریقہ اپنایا گیا ہے۔
فضا پر جو بادل چھائے ہوئے ہیں ناخوشگوار ہیں لیکن منظر بدل جاتا ہے۔ تماش بینوں کو ڈرامائی اور روایتی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔
'جمہوریت بہترین انتقام ہے'۔۔۔ باغیچے میں دانہ چُگتا مرغ انگریزی میں بانگ دیتا ہے۔ اس کے پنجوں پر تیز دھار استرے لگے ہوئے ہیں۔
'ووٹ کو عزت دو'۔۔۔ دیوار پر اونگھتا ایک اور مرغا یکے بعد دیگرے اپنے پنجے پریڈ کرنے کے انداز میں زمین پر مار کر جوابی بانگ دیتا ہے۔
بانگ باز مرغے ہمیں یاد دلاتے ہیں، کھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
جمہوریت اور ووٹ کے برانڈڈ تاجر سیاست کے دھندے میں پرانے بیوپاری ہیں، ایک سنکی اخبار نویس تجزیہ کرتا ہے۔ وہ جانتے ہیں، کون سے پلڑے میں بیٹھ کر دھرنا دینا ہے۔ اس ہنر کو انہوں نے قابل ذکر انداز میں پروان چڑھایا ہے۔ بروقت بانگ دینے پر ان کو حسین شام اور بہترین دام ملتے ہیں۔ وہ حلقہ بہ گوش ہونے کا موزوں وقت اور قربت کا خوشگوار لمحہ بھانپ لیتے ہیں۔ سیاست کی آلودہ کڑیوں نے انہیں نسل در نسل شرفاء بنے رہنے میں مدد فراہم کی ہے۔ ان کو خاندانوں کی طرف سے جاگیریں ملی ہیں۔ اقتدار کا وقفے وقفے سے ذائقہ چکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی وراثت میں عطا ہوئی ہیں۔ کسی کی پہلی پُشت تو کسی کی دوسری پُشت پارٹی کی تاحیات سربراہ بنی ہوئی ہے۔ وہ قومی رہنما کہلاتے ہیں۔ انگریزوں کے زمانے سے قومی رہنما کی اہلیت کی شرائط سے بھی واقف ہیں۔ ان خاندانوں نے سیاست کے کاروبار میں اس وقت قدم رکھا جب ان کے بڑے اپنے وقت کے کسی آمر کے چنیدہ قرار پائے، عمران خان کی طرح۔
پاکستان میں حالات سے متعلق، ایک گھر کا منظر دکھایا جاتا ہے، مختلف الخیال افراد باتیں کر رہے ہیں۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے:
حالات، جیسے سیاست دانوں کے پروردگان نے سوچے تھے، ان کے خدشات سے بڑھ کر بد رفتار ہو گئے ہیں۔ چپقلش اور کشاکش سے جو انتشار پیدا ہوا، جو واقعات رونما ہوئے، ان کے دراز دائرہ کو صحافی گرفت میں کیسے لاتے ہیں؟ یہ ان کیلئے آسان نہیں۔ ڈرامائی موڑ ناگہاں اور تیزی سے سامنے آتے ہیں۔ صحافت ان کا درست انداز میں بیان یا ان کی قابل فہم صاف تصویر کیسے دکھائے، جو سچ ہو، جو ٹریجڈی کی واقعی دستاویز بن جائے۔ جو بیانیہ فی الحال مقدم ٹھہرا ہے، اس کی درست جراحی، ناک نقشے کی چھان بین ان کے پیشہ ورانہ مستقبل کو خاکستر بنا سکتی ہے؟ واقعات کی دھڑکتی نبض کی، ہمہ جہت، پوری تصویر کیسے دکھائی جائے۔ حالات کی آتشزدگی کے سامنے ان کی دست بستہ بے چارگی، ناگزیر اور شکست خوردہ کردار کی بوٹیاں نوچنے میں دلچسپی، صاف محسوس ہوتی ہے۔
مین سٹریم سے باہر اکا دکا صحافی اور کچھ افراد کو چھوڑ کر بیشتر مضر تجزیہ پیش کرنے، انتقام جوئی پر مائل ڈسکورس پھیلانے، دائمی مالکان سے شہرت کا معقول معاوضہ پانے اور پیشہ ورانہ حیثیت کو چمکتا ستارہ بنانے کیلئے سانپ سیڑھی کے اس کھیل کے شراکت دار لگتے ہیں۔
یہ بازی کیسی ہے؟ وہ شاید تاریخ سے نابلد ہیں۔ پوری تصویر نہیں دیکھ پا رہے؟
اپنی ذاتی محفلوں میں، جو اس تھئیٹر کے کئی منظروں میں دکھائی دیتی ہیں، وہ کیا باتیں کرتے ہیں؟ وہ اپنے ملک کی سیاست میں جمہوریت کی عصمت دری کی تاریخ سے واقف نہیں؟ جب وہ احتیاط سے، اپنی بہترین شاموں میں لب کشائی کرتے ہیں، وہ کیا کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں، یہی کہ اس جنگ کے سوتے کن چٹانوں سے پھوٹتے ہیں؟ ان چٹانوں سے، جہاں سے حب الوطنی کی آبشاریں بہتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر عقابی نگاہیں رکھنے والے تجزیہ کاروں نے اپنی پیشہ ورانہ پاک دامنی اور پاکیزگی کا بپتسمہ بھی وہیں سے لیا ہوتا ہے۔
ایک نجی محفل کا منظر، جس میں ڈیکوریٹڈ پنج ستارہ صحافی بیٹھے ہوئے ہیں جو خستہ دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ناخواندہ عوام کی رائے کو درست سمت میں لے جانے کا بھاری بوجھ ان کے کندھوں پر ہے۔ وہ پیشانی پر گرے ملائم بالوں کی لٹ بے دھیانی کا تاثر دیتے ہوئے درست کرتے ہیں، دونوں ہاتھ تھکن کا اثر زائل کرنے کیلئے سر سے اوپر لے جاتے ہیں۔ آستین چڑھاتے ہوئے وہ ان تصاویر کو آپس کی گفتگو میں ایک فریم میں بیان کرتے ہیں۔ ان تصویروں کو جو حالات کو اس نہج تک لے آئے ہیں۔ وہ تشدد سے نفرت کا دکھاوا کرتے ہیں البتہ 9 مئی کے غیر ریاستی تشدد پر، جوابی تشدد کو واحد اور مؤثر علاج سمجھتے ہیں۔ حب الوطنی کی اداکاری کرتے ہیں، اداکاری جو سستی چاپلوسی لگے، جس پر خلوص کی قے نکل آئے۔ طاقتور کی توصیف میں چرب زبانی سے لفظوں سے شہد کی نہریں بہانے کے کرشمے دکھاتے ہیں، جیسے کوئی آٹومیٹک مشین پیداوار دیتی جائے۔ وہ آہن کاروں کے غصے کا حصہ بننے کیلئے اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے قطار بنائے نظر آتے ہیں تا کہ قومی ذمہ داری کا فرض، شہرت کا منہ مانگا معاوضہ پا کر نبھائیں۔ یہ فرض کسی کردار کو پلید کرنے پر پورا ہوتا ہے۔ وہ اپنی محفل میں ان سازشوں، جنہیں وہ حکمت عملی کا نام دیتے ہیں، کی باریکیاں بیان کرتے ہیں۔ وہ سازشیں جن کی نہروں میں پانی چھوڑنے کا کام شروع ہو چکا ہوتا ہے اور جو آہستہ آہستہ بڑی خبریں بن کر شہہ سرخیوں میں جگہ پا کر باہر نکلتی ہیں۔ باتوں باتوں میں وہ بالادستی، قانون سے برتر اور بالا ہونے کی حقیقت پر کھڑے ہونے کی نمائش کرتے ہیں۔ ان کے لفظ سپاٹ اور بے جان ہیں۔ اچھی معیاری تصاویر اور صاف بیانیہ نہیں دکھاتے۔ ٹی وی فوٹیجز پورے واقعہ کو اس کی تاریخ سمیت گرفت میں لینے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔
'یہ دو اداروں کی جنگ ہے'۔ وہ یہی بتاتے ہیں۔
'ایک طرف لاڈلا ہے'۔۔۔ اپنے وقت کے سب سے بڑے سرکس باز کو وہ اسی نام سے پکارتے ہیں۔
'دوسری طرف فوج ہے'۔۔۔ بس اتنا ہی وہ لکھتے یا اپنے تجزیے میں کہتے ہیں۔
عمران خان، اس کے سیاسی کردار بننے کی تاریخ بھی ہمیں یاددہانی کیلئے بار بار پس منظر سمجھانے کیلئے دکھائی جاتی ہے۔ شروع میں وہ ایک تفریح باز یا کرکٹر کے طور پر مشہور دکھائی دیتا ہے۔ جو بعد میں سلطنت چلانے والے بڑے گھرانے کا پیارا خاکروب بن جاتا ہے۔ بڑے گھرانے کے سلطانوں کا طاقتور خاندان اس لڑکے کو بھرپور توجہ، سخت محنت اور انتہائی شفقت سے پروان چڑھاتا ہے۔ گھر کے وہ افراد جو سخت نظم و ضبط کے عادی ہیں، ان کا ایک پسندیدہ موضوع 'ملک سدھارنا' بھی ہے۔ وہ جب مل بیٹھتے ہیں یہ موضوع چھیڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنے سے چھوٹا موٹا دھندہ کرنے والے لوگوں جنہیں سیاست دانوں کا نام دیا جاتا ہے، کی بد خصلتی، چوری چکاری، لوٹ کھسوٹ اور رشوت گیری پر نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔
خاکروب اُن کو بہت پیارا تھا۔ اس سے وہ اپنی بے پناہ نفرت نہیں چھپاتے جو انہیں سیاست کی چھوٹی دکانیں، یا ریڑھیاں لگانے والے گھرانوں سے ہے۔ اس کو بھی گھر کے مالکان سے اسی قدر پیار تھا۔ وہ بڑے مالکان کی یہ نفرت اپنے اندر اتار لیتا ہے، کسی وفادار نوکر کی طرح۔
کھیل کا یہ منظر پورے کھیل پر چھایا ہوا ہے۔ جب وہ ان کا نمائندہ بنتا ہے۔ سیاست کی چھوٹی دکانیں کرنے، ریڑھیاں لگانے اور ڈھابے چلانے والوں کو بد خصلت، چور، زمین خور کہتا رہتا ہے۔
اس گھر میں ایک اصول انگریزوں کے زمانے سے قائم ہے۔ فیملی کا سربراہ جس کسی کو چنا جاتا ہے، اس کا حکم ماننا سب پر فرض ہوتا ہے تا کہ خاندان میں نظم و نسق کا سلسلہ قاعدے کے مطابق چلتا رہے۔
وہ یہ اصول توڑ دیتا ہے۔
کھیل دیکھتے دیکھتے ہم جان جاتے ہیں کہ گھرانے کے بڑوں کا مزاج تلخ ہو چکا ہے۔ وہ چھوٹے کی نافرمانی پر ناراض لگتے ہیں۔ ہمیں، جو بڑے خان ایک دوسرے سے نزدیک ہیں ان کی بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ دکان پر بیٹھے چھوٹے خان نے خفیہ ادارے کے سربراہ سے ساز باز کر لی ہے۔ ان کے گھر کے اندر ایک اور گروپ بن چکا ہے اس لئے چھوٹا اپنے بڑوں کی بات نہیں مان رہا۔
انسان کی تاریخ مذاکرات کی حقیقت اور جنگ کی وحشت دونوں کے بارے میں بتاتی ہے۔ لوگ اختلافات، تنازعات اور نااتفاقی کا حل نکالنے کیلئے مل بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سنتے ہیں۔ متفقہ فیصلہ، جب وہ یہ کہتے ہیں تو یہی معنی نکلتے ہیں، کہ فریقین نے اپنے حق میں اچھا حل نکالا ہے۔ بہترین فیصلہ، جب وہ یہ کہتے ہیں، تو یہی کہ وہ مل بانٹ کر کسی چیز کو کھانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ وہ کبھی کچھ لو، کچھ دو پر سمجھوتہ کرتے ہیں، یہ میرا، وہ تیرا۔ جب نتیجہ نہ نکلے، تیسری راہ اپناتے ہیں؛ لڑائی لڑنا، زور بازو پر اپنا حصہ لینا یا دوسرے کا حصہ چھیننا۔ لڑائی بات چیت سے نتیجہ نہ نکلنے پر شروع ہوتی ہے۔
بڑے گھرانے میں یہ لڑائی اس مرتبہ خفیہ ادارے کی سربراہی سے شروع ہوئی۔ نتیجہ 9 مئی کو نکلتا ہے۔ چھوٹا خان بیچ کا بندہ ہے جو محض سکرین پر بڑا کردار لگتا ہے۔ تجربہ کار ہدایت کار کھیل دیکھنے والوں کی نظروں سے اوجھل رہنا پسند کرتے ہیں۔
اس کشاکش میں گھر پر ایک گروہ نے گرفت مضبوط کر لی ہے۔ عوام بڑے گھرانے کے خان صاحبان سے تنگ آ چکے ہیں۔ چھوٹے خان کے گروہ کو اس تنگ حالی کا علم ہے۔ وہ طاقت کے مراکز پر ہجوم سے حملہ کرواتا ہے۔ اس توقع پر کہ انقلاب کے خواب دیکھنے والے باہر نکلیں گے۔
کوئی عمدہ خاکہ ساز جو خاکوں کو بولتا دکھا پائے۔ یہ نظارہ بہت ہیجانی تھا، جب خفیہ ادارے کا سابق سربراہ یا مخبر اعظم اپنے پیروکاروں کو بغاوت پر قائل کرنے کیلئے لیکچر دیتا ہے؛
'بڑے گھرانے کے خلاف لوگوں میں غصہ بہت ہے، وہ بیزار ہیں، وہ تنگ آ چکے ہیں، یہ بات میں دوسروں سے بہتر جانتا ہوں کیونکہ میں مخبر اعظم رہا ہوں'۔
'میرے پاس گھر گھر کی خبریں آتی تھیں'۔۔۔ وہ مزید کہتا ہے۔
شہادت کی انگلی سے عمران خان کی طرف اشارہ کرتا ہے؛ 'تم آج سے ہماری ریڈ لائن ہو'، وہ کہتا ہے۔۔۔ 'تم ان کے پول کھول دو، اشتعال انگیز باتیں کرو، لوگ ان سے جیسی نفرت کرتے ہیں، ویسی نفرت انگیز باتیں کرو'۔۔۔ وہ اپنی تقریر جاری رکھتا ہے۔
'تمہیں گرفتار اگر کیا گیا تو سمجھو ہماری ریڈ لائن پر حملہ ہوا۔ ہم وہاں آگ لگا کر جواب دیں گے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا، نفرت کا اظہار کرنے لوگ خود نکلیں گے'۔
وہ اطمینان سے اپنی بات ختم کرتا ہے۔ آگ لگانے جو نکلتے ہیں، ہم سکرین پر دیکھتے ہیں، وہ پتلون لٹکا کر بدلہ لیتے ہیں۔ اس فوجی افسر کی توند کا نمبر بتاتے ہیں جو ایک آسودہ حال اور صحت مند شخص کا نمبر لگتا ہے۔
بڑے گھرانے نے ہنرمندی سے کام لیا۔ اپنی طاقت دکھا کر چھوٹے دکانداروں کے کان کھینچے۔ مال بنانے، زمین خوری اور بد عنوانی کے پرانے کھاتے دکھا کر سیاست کی ریڑھیاں، ڈھابے لگانے والوں کو ساتھ ملا لیا تھا۔ جس کی ابتدا وہ سال بھر پہلے کر چکے تھے۔ کھیل کی پوری تفہیم فراہم کرنے کیلئے یہ مناظر ہمیں 9 مئی کی رات کو دکھائے جانے والے سین کے پس منظر میں دکھائے جاتے ہیں۔
گھاگ گھرانے گھاٹے کا سودا کم ہی کرتے ہیں۔
سلطنتیں چلانے کیلئے بادشاہوں کو امید، ایمانداری، مستقبل، خوشحالی جیسے خواب درکار ہوتے ہیں۔ عوام بہل جانے میں دیر نہیں لگاتے، اگر وقت کے ساتھ ساتھ اشتہار پر نعرہ اور حساب کتاب کی میز پر بیٹھا خواب کار چہرہ نیا ہو۔ عمران خان کی شخصیت بھرپور توجہ، سخت محنت اور انتہائی شفقت سے تعمیر کی گئی ہے لہٰذا وہ دکان چلانے کیلئے کارگر نظر آتا ہے۔ وہ اس کردار کی پیچیدگی پر دھیان نہیں دیتے جیسے ناکام تخلیق کار کرتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم کو سمجھنا نارویجن جنگلی بِلّے کے پزل کے بکھرے ٹکڑوں کو جوڑنے جتنا دلچسپ ہے۔ اس بِلّے کی گردن پر بے پناہ بال پائے جاتے ہیں جو پزل جوڑنے والے کو الجھا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ خاکہ سیاسی پروردگان نے ایک ایک ٹکڑا جمع کر کے بنایا ہے البتہ اس پزل کی کلید اور اسے توڑ کر دوبارہ جوڑنے، کہاں سے جوڑنا شروع کرنا ہے، کی ہنرمندی ان کی تیسری بیوی بشریٰ بیگم کو ودیعت ہوئی ہے۔
اچھے بچوں کی طرح وہ اس کا حکم مانتا ہے۔ اس کی فرماں برداری نے سابق وزیر اعظم کی توہم پرستی کو راز نہیں رہنے دیا۔ تاریک قوتوں سے خود کو بچاؤ، وہ اپنے شوہر کو مشورہ دیتی ہے۔ وہ عدالت جانے کیلئے جب نکلتا ہے تب بالٹی نما کوئی شیلڈ اپنی گردن اور سر کے گرد پہنتا ہے۔ عدالت کا یہ منظر بڑی تعداد میں شائقین نے دیکھا۔ تماش بین اس فنکار کو داد دینے لگے جس نے اپنے ہٹ دھرم کردار کو مسخرہ بنا کر پیش کیا تھا۔ وہ جاننے کیلئے بیتاب دکھائی دیتے ہیں کہ یہ ہنرمندی اور ہٹ دھرم کردار کو مزاحیہ روپ میں پیش کرنے کی یہ مہارت کس نے دکھائی ہے۔ ان کو بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ ایک دن عدالت میں پیشی کیلئے وہ خود بھی پہنچتی ہے۔ ان کو خود پر پاک سرزمین کی ناپاک نظروں کے پڑنے کا خطرہ ہے۔ اس مرتبہ سفید چادروں کا حصار قائم کیا جاتا ہے۔ یہ چادریں گاڑی سے عدالت کی دہلیز تک پھیل جاتی ہیں تا کہ چشمِ بد اُن سے دور رہے۔
میاں بیوی سے زیادہ ان دونوں کا رشتہ ماں بیٹے کا تعلق لگتا ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کو مردانگی سے بے پناہ عشق ہے۔ عمران خان کو اس معاشرے میں مثالی مرد ہیرو کا درجہ ملا۔ انصاف دلانے والے سیاسی رہنما بنانے سے پیشتر اسے ایک شہزادے کا درجہ دیا گیا۔ ایسا شہزادہ عورت جس کے خواب دیکھتی ہے۔ عورتوں کے ساتھ تعلقات کو اس کی فتوحات میں شمار کیا گیا۔ مردانگی پر جان چھڑکنے والے پاکستانی ماحول میں عورتوں کا زاویہ نگاہ جاننے میں کسی کو دلچسپی نہیں تھی۔ کوئی بھی نہیں سننا چاہتا تھا کہ ان کی اپنی رائے کیا ہے۔
کامیابیوں کو اپنے قدموں کی دھول سمجھنے والا یہ شخص عورتوں کو کتنا حقیر لگا ہو گا۔ کتنا ہانپتا ہوا محسوس ہوا ہو گا۔ کتنا کانپتا ہوا جنسی مریض دکھائی دیا ہو گا۔ یہ بات بشریٰ بیگم کو سودمند لگی، بیوی کے روپ رشتے میں شوہر کو گود لینا۔
عراق اور پاکستان کی سیاست میں مماثلتیں مشرق وسطیٰ کی سیاست پر مکتبی کتابیں پڑھانے والے پروفیسر ہی بہتر جانتے ہوں گے کہ کتنی ہیں؛ میں کچھ نہیں جانتا۔ بس اتنی خبر ہے کہ کُرد جو وہاں کُردستان میں رہتے ہیں ان کی زبان کا سب سے بڑا لہجہ، کُرمانجی اور بلوچی زبان کا آپس میں دو بہنوں جیسا رشتہ ہے۔ صدام حسین ان کو کس طرح کیمیائی گیس سے مارتا تھا، ہمیں امریکہ نے اس وقت بتایا جب اسے صدام حسین کو مارنا تھا۔ پاکستان میں 9 مئی کے واقعات کے بعد بیشتر تجزیہ کاروں نے اگر، مگر اور یہ، کی شرائط کے ساتھ ضمیمے کا ٹانکا لگایا اور بلوچوں کو یاد کیا۔ 9 مئی کے دن اگر بلوچ ہوتے، وہ کہتے سنے گئے، تو ان کو کیسی مار پڑتی؟ اس میں شبہ نہیں، بلوچستان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وہ سب جانتے ہیں۔ ان کو روز یاددہانی کی حاجت نہیں۔
بلوچ ہونے کا مطلب ایک ڈرا ہوا، خوفزدہ شخص ہے۔ پولیس کو وہ مشکوک، منشیات فروش، سمگلر، ناخواندہ، بے روزگار، دھوکہ باز دِکھتا ہے۔ گُم ہو جاتا ہے تو لاش بن کر گھر لوٹتا ہے، زندہ واپسی کا امکان نہیں۔ نفسیاتی طور پر بے پناہ ہراساں لوگ، جنہیں 9 مئی کے ملزمان کی طرح فوجی عدالتوں میں پیش کئے جانے کا حق بھی حاصل نہیں۔ اس قانون کو پاکستان کی سول سوسائٹی نے رد کیا ہے۔ وہ سپریم کورٹ، کسی کو سزا ملنے سے پہلے ہی، پہنچ گئے۔ اس قانون کو شہریوں کو زد میں لینے کی اجازت نہ دی جائے، سول سوسائٹی نے اپیل کی۔ بلوچ کو اس طرح کی مسترد شدہ سہولیات یا شاید مراعات کہنا چاہئیے، بھی نہیں ملتیں۔
بلوچ اپنی اوقات جانتا ہے!
مری چرواہوں کا ایک گروہ بکری خرید کر پیسوں کی ادائیگی نہ کرنے والے بگٹیوں کی شکایت کرنے آیا ہے۔ نواب خیر بخش مری توجہ سے ان کی بات سنتے ہیں۔ مجلس میں قبائلی مریوں کے علاوہ نواب مری سے نظریاتی قربت رکھنے والے کراچی اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے لوگ بھی بیٹھے ہیں۔ کوئی کچھ نہیں بولتا حتیٰ کہ نواب صاحب بھی خاموش ہیں۔ چرواہے بھی چپ ہیں۔ ایک شخص جو چرواہوں کا نمائندہ لگتا ہے، اپنی آمد اور مدعا، بکریوں کی فروخت کا قضیہ اور اپنی مشکل بیان کرتا ہے۔
نواب مری ایک اچھے سامع کی طرح، جس طرح ٹی وی ناظرین پرائم ٹائم کی خبروں کو سمجھنے کیلئے نیوز کاسٹر کو شہ سرخیاں بیان کرتے ہوئے دلجمعی سے سنتے ہیں کہ کہیں کوئی اہم خبر ہاتھ سے نکل نہ جائے، بات پوری سننے کے قائل نظر آتے ہیں۔ بیچ بیچ میں ٹوکتے بھی نہیں، نہ کوئی نکتہ اٹھاتے ہیں کہ مبادا بولنے والے کو کہیں ان کی نوابی کا احساس ہو جائے۔
چرواہا اپنی بات ختم کرتا ہے۔ 'میں' وہ نپے تلے الفاظ میں کہتا ہے، 'آپ کی مدد نہیں کر سکتا'۔ 'وہ براہمداغ بگٹی کے لوگ ہوتے تو میری بات سنتے'۔ اس نے اپنی بات مکمل کر لی تھی۔
وہ بات چیت میں یک طرفہ نہیں تھے۔ دوسروں کو صبر و تحمل کے ساتھ سنتے تھے۔ جلد بازی کا کوئی سیاستگرانہ تاثر نہیں ملتا۔ جواب کیسا ہے، تفصیل بیان کر کے، یا مختصر چند لفظوں میں ہو، وہ کہہ دیتے۔ لوگ ان کو کم گو، بسیار گوئی کی بیزار کن عادت سے آزاد ہونے کے باعث، مشکل انسان سمجھتے تھے، جس سے بات کرنا آسان نہ ہو۔ وہ رنگ بدلتے سیاست دانوں پر زیر لب مسکراتے رہتے۔ جیسے سکرین پر کسی کو اچھلتے کودتے دیکھنا اور قیاس کرنا کہ بیچارہ احمق سہی، منڈلی میں اپنے حصے کا ناٹک، ہدایت کے مطابق، دکھا رہا ہے۔
تین مرتبہ میں ان سے ٹی وی کیلئے انٹرویو لینے گیا۔ وہ سیاسی اور قبائلی لوگوں، کارکنان میں گھرے رہتے تھے۔ انٹرویو دینے پر آمادہ نظر نہیں آئے۔ گھنٹوں غیر رسمی بات چیت کی۔ واقعات بیان کیے۔ تجزیہ کیا۔ کیمرے کی گول آنکھوں کے سامنے دکھاوا کرنے کے روادار نہیں ہوئے۔ وہ اعتبار کرنے پر راضی نہیں تھے۔ ان کا یقین ٹوٹ چکا تھا۔ ایسا کردار جو کورس میں بھی گاتا، بانگ دیتا ہو، وہ ایسا نہیں بننا چاہتے تھے۔ وہ سیاست دان ہی بنے رہنا چاہتے تھے۔
ٹیگز: 9 مئی 2023 کے واقعات, بشرٰی بیگم, پاکستان تحریک انصاف, پروجیکٹ عمران خان, پی ٹی آئی, پی ڈی ایم جماعتیں, سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ, سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید, عمران باجوہ فیض گٹھ جوڑ, عمران خان, عمران خان کی گرفتاری, فوج سیاست میں, فوج عمران ایک پیج پر, فوجی اسٹیبلشمنٹ, فوجی عدالتیں, نواب خیر بخش مری