Get Alerts

افغان امن عمل کے دوران حالیہ تشدد کی لہر: کیا طالبان کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں؟

افغان امن عمل کے دوران حالیہ تشدد کی لہر: کیا طالبان کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں؟
افغانستان کے دارلحکومت کابل میں منگل کے روز زچہ بچہ کے ایک سنٹر اور ننگرہار میں ایک جنازے پر حملے کے بعد جہاں ایک طرف پوری دنیا نے اس حملے کی مذمت کی وہاں ملک کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے قوم سے اپنے خطاب میں افغانستان کی افواج کو حکم دیا کہ وہ ملک دشمنوں کے خلاف کارروائیاں کریں۔ بظاہر تو اس حملے کی زمہ داری داغش نے قبول کی مگر اشرف غنی نے کسی دہشتگرد تنظیم کا نام نہیں لیا جس کے بعد افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نہ صرف ان حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ اس کے ساتھ اپنے پیغام میں کہا کہ طالبان کسی بھی جارحانہ عمل کا سخت جواب دیں گے۔  اس صورتحال  کے بعد افغانستان سمیت پوری دنیا میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا امریکا اور طالبان کے درمیان اسی سال ہونے والا امن معاہدہ خطرے میں پڑجائے گا؟ اور اگر تشدد کی یہ لہر جاری رہی تو کیا سمجھا جائے کہ طالبان کا ہدف کسی طرح کابل پر قبضہ کرنا ہے؟ اور کیا یہ ہو بھی پائے گا؟  شاید یہی وجہ تھی کہ  افغانستان کے لئے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے اپنے پیغام میں زور دیا کہ یہ حملے داعش نے کئے ہیں اور افغان عوام کو امن کا یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے اور نہ داعش کے امن خراب کرنے کی ہتھکنڈوں کا شکار ہونا چاہیے۔ امریکا کے خارجہ امور کے سیکریٹری مائک پومپیو نے بھی اشرف غنی کے حالیہ پالیسی کی حمایت نہیں کی اور اپنے پیغام میں کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کو داعش کے خلاف متحدہ ہونا چاہیے۔

اشرف غنی کے طالبان کے خلاف کارروائیاں کرنے کے احکامات اور افغان امن معاہدے کے مستقبل پر نیا دور میڈیا نے پاکستان اور افغانستان کے صحافیوں اور تجزیہ نگاروں سے افغانستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کے تناظر میں بات کی جو نیا دور کے قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

افغانستان میں مقیم سینئیر صحافی اور مصنف سمیع یوسفزئی نے نیا دور میڈیا کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ طالبان امن معاہدے میں کچھ بنیادی نقص تھے جن کی وجہ سے سیاسی ماحول سازگار نہیں ہورہا۔ انھوں نے کہا کہ یہ معاہدہ امریکہ اور افغان طالبان کے بیچ ہوا اور افغان حکومت اس سے باہر رہی جس کے بعد اشرف غنی کی حکومت نے اس پر نہ صرف تحفظات کا اظہار کیا بلکہ صدر کے حالیہ بیان سے امریکہ کو ایک پیغام بھی دیا گیا کہ افغان حکومت اس بات کے لئے بلکل تیار نہیں کہ وہ )امریکا( افغانستان کے سیاسی فیصلوں کا مکمل اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لے۔ انھوں نے مزید کہا کہ افغان حکومت کو امریکہ سے کچھ گلے شکوے بھی ہیں کہ امن معاہدے کے پورے عمل میں نہ صرف افغانستان کو باہر رکھا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کو اہمیت بھی نہیں دی جن سے ایک سیاسی خلا پیدا ہوا۔
سمیع یوسفزئی کا ماننا ہے کہ امریکہ کے افغانستان امن کے لئے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد جب امن معاہدے میں پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کا ایجنڈہ شامل کررہے تھے تو وہ افغانستان کے سیاسی حالات سے ناواقف تھے اور انھوں نے افغان حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر یہ فیصلہ کیا جس پر اٖفغان حکومت کو نہ صرف اعتراضات ہیں کیونکہ وہ اس بات کے لئے تیار نہیں کہ بغیر شرائط کے وہ پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کریں اور اس کے لئے انھوں نے طالبان سے بار بار درخواست کی ہے کہ وہ مکمل سیزفائر کریں تاکہ افغانستان اس پر پر اعتماد ہوجائے کہ طالبان امن کے حامی ہیں۔ مگر طالبان حکومت کے ساتھ بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکا حالات کا غلط جائزہ لے رہا تھا اور یہ سمجھ رہا تھا کہ تخت کابل پر براجمان ڈاکٹر اشرف غنی ان کی ہر شرط پر عمل کرینگے مگر ایسا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

اسلام آباد میں مقیم افغان امور کے ماہر اور صحافی طاہر خان سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں حالیہ حملوں سے حالات بدتر ہوئے ہیں اور زمینی اور سیاسی حقائق یہ واضح کررہی ہے کہ افغانستان کے حالات غیر یقینی کی طرف جارہے ہیں اور اس وقت امن کے حامی سب فریقین سے مایوس ہیں اور ایک سوال سب کی تشویش میں اضافہ کر رہا ہے کہ افغانستان کا کل کیسا ہوگا؟
انھوں نے کہا کہ امریکہ اور افغان طالبان کی اس شرط پر مفاہمت ہوئی تھی کہ وہ ملک کے بڑے شہروں کو نشانہ نہیں بنائینگے مگر گردیز حملے کے بعد ایسا نہیں لگ رہا کہ طالبان اس عمل کی پاسداری کررہے ہیں کیونکہ ولایت گردیز پکتیا کا ایک اہم مرکز اور شہر ہے۔ طاہر خان ایک اور نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ویسے تو افغان طالبان نے امریکا یا افغان حکومت کے ساتھ سیز فائر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا مگر پھر بھی ہم دیکھیں تو حالیہ تشدد کی لہر کے بارے میں دو چیزیں سامنے آتی ہے ایک یہ کہ شائد یہ افغان طالبان کا موسم بہار کے اپریشن کے شروعات ہو یا پھر اشرف غنی کے حالیہ بیان کا کوئی جواب۔

کیا امن معاہدے کے بعد افغانستان میں تشدد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے؟
اس سوال پر سمیع یوسفزئی کی رائے ہے کہ امن معاہدے کے بعد تشدد میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں آئی اور گزشتہ ہفتے لغمان میں ایک حملہ ہوا اور اسکے بعد زابل میں ایک حملہ ہوا جس میں افغان فوج کے نوجوانوں کے نعشوں کو جلایا گیا جس نے اس حوالے سے ایک غلط تاثر قائم کیا اور ایسا نہیں لگ رہا کہ طالبان امن اور تشدد میں کمی کرنے میں سنجیدہ ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر ایک طرف اشرف غنی افٖغانستان کے مستقبل کے حوالے سے خدشات رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ طالبان بھی حالات کا درست تجزیہ نہیں کررہے ہیں کہ گزشتہ صدی کے کابل اور اج کے کابل میں کتنا فرق ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اشرف غنی حکومت کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ تو شروع ہوا اور طالبان کی جانب سے بھی کچھ قیدی رہا ہوئے تھے مگر حالیہ حملوں نے اس عمل کو سبوتاژ کیا۔ ایک سوال پر کہ کابل کے حالیہ حملوں کی طالبان نے تردید کی تھی پر سمیع یوسفزئی نے کہا کہ ایسا نہیں کیونکہ کچھ دن پہلے داعش اور حقانی نیٹ ورک کا ایک گروہ پکڑا گیا جو مشترکہ طور پر کام کررہے تھے اور اب یہ ظاہر ہورہا ہے کہ داعش اور طالبان کے دیگر گروپوں کے درمیان رابطے ہیں اور ہر حملے کے پیچھے کوئی نہ کوئی لنک ضرور ہوتا ہے اور ان حملوں کا مقصد افغان حکومت پر دباوٗ بڑھانا ہے۔ مگر سمیع یوسفزئی کا ماننا ہے کہ اگر امریکہ کو بھی معلوم ہوا کہ افغانستان میں  اگر جنگ چڑھ گئی تو وہ افغانستان سے ایسے نہیں جائے گا مگر یہ ائندہ سال ہونے والے انتخابات پر ہے کہ وہاں کونسی سیاسی تبدیلی آتی ہے۔
طاہر خان سمیع یوسفزئی کی اس رائے سے  اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ افغان حکومت امن معاہدے میں تنہا کھڑی نظر آئی اور امن عمل سے ان کو باہر کیا گیا جس پر اشرف غنی کو یہ لگا کہ افغانستان کے جیل میں قید طالبان قیدیوں کا فیصلہ کیسے  اکیلا امریکا کرسکتا ہے اور اسی طرح  افغانستان کے فیصلے امریکا اکیلا کیسے کرسکتا ہے؟  افغان حکومت اس پر ناخوش ہے اور یہی وہ وجہ ہے کہ وہ قیدیوں کی رہائی میں جلدی نہیں کررہے۔  مگر طالبان اور افغان حکومت کی انا اور ضد کا اثر افغان عوام پر ہوگا اور امن کی امیدیں دم توڑ جائے گی اس لئے دونوں فریقوں کے لئے ضروری ہے کہ زاتی پنسد نا پسند سے نکل کر افغانستان کے امن کے لئے سنجیدہ کوششیں کریں اور قیدیوں کے رہائی کا سلسلہ جاری رکھیں کیونکہ یہ امن عمل میں تسلسل کو جاری رکھے گا۔

   کیا طالبان کابل پر قبضہ کرکے اپنا سیاسی سوچ لوگوں پر نافذ کرسکتے ہیں؟

حال ہی کہ حملوں کے بعد افغانستان کے نوجوان نسل نے سوشل میڈیا پر طالبان اور دیگر انتہاپسند تنظیموں پر سخت تنقید کی جبکہ اس کے ساتھ ملکی میڈیا پر بھی خاصی گہما گہمی رہی اور سمیع یوسفزئی اس بات پر اتقاق کرتے ہیں کہ سال1996 اور سال 2020 کے افغانستان میں زمین و اسمان کا فرق ہے اور اگر طالبان نے کابل کا موجودہ نقشہ دیکھا تو ان کو یقین نہیں ہوگاکہ کیا یہ وہی کھنڈر افغانستان ہے جو ہم نے چھوڑا تھا۔ کیونکہ کابل میں لاکھوں کی تعداد میں تعیلیمی ادارے اور حکومتی مخکمے بنے ہیں اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی سوشل میڈیا سے وابستگی، ملک میں ابھرتے ہوئے مین سٹریم میڈیا اور نئے تعمیرات اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ افغانستان اب ترقی کے راستے پر گامزن ہے اور ان پر طالبان کی حکمرانی کا خواب نامکمل ہے۔ سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ چوبیس  سال پہلے کا کابل شمالی اتحاد اور برہان دین ربانی کے پاس تھا جو کمزور تھے اور ان کے لئے کابل کا دفاع کرنا ناممکن تھا مگر موجودہ افغانستان میں ایک مکمل نظام ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تقریبا چار لاکھ فوج اور بین القوامی تعاون بھی حاصل ہے تو اس صورت میں کابل پر قبضہ کرنا ناممکن ہے۔
وہ کہتے ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ طالبان جنگ میں تیزی لاسکتے ہیں مگر وہ تخت کابل پر قبضہ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ اگر انھوں نے قبضہ کیا اور اپنی پرانی پالیسیاں چلاتے رہے تو کل کسی گلی میں دس ہزار خواتین اکھٹی ہوکر اگر طالبان کے خلاف احتتجاج کریں تو یہ طالبان کے لئے ناممکن ہوگا کہ وہ سب کو ماردیں۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ افغانستان میں طالبان کے لئے اسلامی امارات قائم کرنا ناممکن ہے کیونکہ افغان عوام میری رائے میں اس کئے لئے تیار نہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔