انسانی حقوق تنظیموں کا حکومتی اداروں سے تکفیر کے قوانین کا بد استعمال روکنے کا مطالبہ

انسانی حقوق تنظیموں کا حکومتی اداروں سے تکفیر کے قوانین کا بد استعمال روکنے کا مطالبہ
اِدارہ برائے سماجی انصاف اور پیپلز کمیشن برائے حقوقِ اقلیت نے تکفیر کے قوانین کے بد استعمال کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ توہین کے الزامات ذاتی تنازعات، اقلیتوں کو ہراساں کرنے، تشدد اور نفرت کو بڑھانے کے لئے استعمال ہوئے ہیں اورحکومت ان تمام واقعات کی روک تھام میں ناکام نظرآئی ہے۔

پیپلز کمیشن برائے حقوقِ اقلیت  کے سرپرست اعلیٰ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال اور اِدارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے مشترکہ خطوط میں وفاقی وزارت برائے انسانی حقوق، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹیوں، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے قائم کردہ ون مین کمیشن سے تکفیر کے قوانین کے تحت درج ہونے والے جھوٹے مقدمات اورپُرتشدد واقعات کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے اور فوری جامع  اقدامات اُٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

انسانی حقوق کے حکومتی اداروں کو ارسال کئے گئے خطوط میں یکم جنوری سے 10 مئی 2023 تک کے مبینہ توہینِ مذہب کے 57 مقدمات اور چار افراد کے ماورائے عدالت قتل کی معلومات شامل کی گئیں ہیں۔ ان مقدمات میں سب سے زیادہ 28 پنجاب میں، اس کے بعد سندھ میں 16، خیبر پختونخواہ میں 8 اور آزاد جموں و کشمیر میں پانچ مقدمات درج ہوئے۔ اِن تمام مقدمات کے ملزمان کے کوائف بھی خطوط کے ساتھ بھیجے گئے ہیں۔

1994 سےمئی 2023 تک اب تک تکفیرِ کے الزامات کے بعد 92 افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان افراد میں 50 کا تعلق مذہب اسلام، 23 مسیحی عقیدہ کے افراد، 14 احمدی، 2 ہندو، ایک بدھ مت شامل ہیں جبکہ 2 افراد کا مذہب معلوم نہیں ہو سکا۔

اِدارہ برائے سماجی انصاف اور پیپلز کمیشن برائےحقوقِ اقلیت نے تکفیر کے قوانین کے بد استعمال کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ توہین کے الزامات ذاتی تنازعات، اقلیتوں کو ہراساں کرنے، تشدد اور نفرت کو بڑھانے کے لئےاستعمال ہوئے ہیں اورحکومت ان تمام واقعات کی روک تھام میں ناکام نظرآئی ہے۔

فرقہ واریت اور عدم رواداری میں ملوث گروہوں نے لاقانونیت کا ماحول پیدا کر رکھا ہے جس سے اظہارِرائے، آزادیِ نقل و حمل اور سماجی ابلاغ بالخصوص اقلیتی گروہوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ لہٰذا اِدارہ برائے سماجی انصاف اور پیپلز کمیشن برائے حقوقِ اقلیت نے حکومتی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ تکفیر کےجھوٹے الزامات کے تحت درج مقدمات میں خلاف ورزیوں کے خاتمے کے لئے درج ذیل اقدامات اُٹھائے جائیں:

الف) مندرجہ بالا صورتِحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سبب بننے والے ان قوانین کے استعمال/غلط استعمال کے خلاف ایک اجتماعی اور قابلِ عمل بیانیہ تشکیل دیا جائے۔

ب) 2009 میں گوجرہ میں بے گناہ افراد کے قتل کے واقعے کے بعد کی گئی عدالتی انکوائری کی سفارشات پرعمل درآمد کے لیے اقدامات کئے جائیں ۔