یہ الفاظ نوجوان قمر عباس کے ہیں جن کے والد ماسٹر لیاقت حسین کو چار مئی کو دن کے وقت ضلع کرم کے علاقے تری منگل کے ایک سرکاری سکول میں نامعلوم مسلح افراد کی طرف سے فائرنگ کر کے بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ تشدد کے ان واقعات میں مجموعی طور پر چار اساتذہ سمیت آٹھ افراد مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں مزدور اور ڈرائیور بھی شامل تھے۔
قمر عباس نے بتایا کہ ان کے چھوٹے بھائی ثمر عباس نے والد کی ہلاکت سے چند منٹ قبل ان سے فون پر بات کی تھی۔ تاہم پندرہ منٹ کے بعد جب دوبارہ ان کو فون ملانے کی کوشش کی گئی تو فون نہیں مل رہا تھا جس سے اندازہ ہے کہ شاید اس وقت تک ان کو ظالموں نے قتل کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’جب انہیں والد کی ہلاکت کی اطلاع ملی تو ایسے لگا جیسے ان پر قیامت ٹوٹ پڑی ہو کیونکہ میرے والد بے قصور تھے، انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، وہ تو ایک استاد تھے، طلبہ کے روحانی باپ اور روشنی پھیلانے والے۔’
مقتول لیاقت حسین ضلع کرم کے دور افتادہ گاؤں شلوزان کے رہائشی تھے۔ وہ سی ٹی کے معلم تھے اور گذشتہ قریب سات سالوں سے گورنمنٹ ہائی سکول تری منگل میں درس و تدرس کے شعبہ سے منسلک تھے۔
شلوزان اور تری منگل کے درمیان قریب سات کلومیٹر کا فاصلہ ہے، مقتول لیاقت حسین روزانہ صبح سکول کی طرف نکلتے تھے اور شام تک گھر واپس آ جاتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: جب APS پشاور کے اندر سے دہشتگرد نے مجھے فون کر کے بتایا، ‘لاشیں گرا دی ہیں’
چار مئی کو ضلع بالائی کرم میں حالات اچانک اس وقت کشیدہ ہوئے جب پاک افغان سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع نورکی کے مقام پر گاڑی میں سوار محمد شریف نامی ایک شخص کو نامعلوم افراد کی طرف سے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ محمد شریف کے بارے کہا جا رہا ہے کہ وہ ٹیکسی ڈرائیور تھے اور ان کا تعلق اہل سنت والجماعت سے تھا۔ تاہم جس جگہ پر محمد شریف کو نشانہ بنایا گیا وہاں بیشتر شیعہ آبادی رہتی ہے اور ان کا اس علاقے میں اثر رسوخ بھی پایا جاتا ہے۔
محمد شریف کا تعلق خروٹی قبیلے بتایا جاتا ہے جو اہل سنت و الجماعت کا ایک قبیلہ ہے۔ وہ گیدو گاؤں کے رہائشی تھے۔ بعض مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد شریف کے قتل سے فرقہ واریت کے عنصر کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ ایک ذاتی نوعیت کا معاملہ تھا جس میں مقتول کی پسند کی شادی کا معاملہ بھی شامل ہے۔
تاہم، مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ محمد شریف کے قتل کے ساتھ ہی علاقے میں افواہوں اور لوگوں کو بے بنیاد معلومات فراہم کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جس نے آگ پر پٹرول چھڑکنے کا کام کیا۔ واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے ایسے بے بنیاد پیغامات نشر کیے گئے جس میں محمد شریف کے قتل کا الزام بغیر کسی تحقیق کے اہل تشیع پر عائد کیا گیا۔
مقامی افراد بتاتے ہیں کہ ضلع کرم میں بدقسمتی سے فرقہ وارانہ واقعات کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے جو کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ یہاں بیشتر اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ جب اس طرح کے فسادات پھوٹ پڑتے ہیں تو سب سے پہلے اس کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل جاتی ہے بلکہ قریبی اضلاع بھی اس کے اثر سے نہیں بچ پاتے۔
چونکہ ضلع کرم میں شیعہ سنی آبادی ساتھ ساتھ رہتی ہے لہٰذا بیشتر اوقات دونوں فرقوں کے افراد ایک دوسرے کے علاقوں میں آتے جاتے رہتے ہیں یا وہاں کام کرتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اس طرح بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی اہل سنت سے ہے تو شیعہ علاقے میں دکان یا اور کوئی کاروبار کرتا ہے یا بہت سارے اہل تشیع عقیدہ رکھنے والے افراد سنیوں کے زیر اثر مقامات پر ملازمت یا تجارت کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اس کی کئی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں کہ جب بھی ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات پیش آتے ہیں تو سب سے پہلے ان افراد کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے جو عین اس وقت ایک دوسرے کے علاقوں میں موجود ہوتے ہیں۔
گورنمنٹ ہائی سکول تری منگل میں موجود شیعہ اساتذہ اور مزدوروں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔
کرم کے ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ جب محمد شریف کا قتل ہوا تو سوشل میڈیا پر جاری ایک جھوٹے پیغام میں دعویٰ کیا گیا کہ مقتول محمد شریف استاد تھے لہٰذا اس کے قتل کے بدلے میں اہل تشیع کے اساتذہ کو مارا جائے گا۔ حالانکہ بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ محمد شریف استاد نہیں بلکہ ٹیکسی چلاتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ‘اگر شہید ہو جاتا تو بہتر تھا کیونکہ بچوں کو تو کچھ مل جاتا’
مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس افراتفری اور غیر یقینی کے ماحول میں کچھ نقاب پوش مسلح افراد نے گورنمنٹ ہائی سکول تری منگل پر دھاوا بول کر وہاں موجود شیعہ مسلک کے چار اساتذہ کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ سکول میں کچھ تعمیراتی کام ہورہا تھا اس کے لئے کچھ مزدور اور ڈرائیور سامان لے کر آئے تھے جن میں تین مزدوروں کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے تھا ان کو بھی مسلح افراد نے پکڑ کر ہلاک کر دیا۔
مرنے والے اساتذہ میں مہدی حسین کا تعلق کڑمان جب کہ دیگر تین اساتذہ سید حسن، لیاقت حسین اور سید علی شاہ کا تعلق شلوزان اور دیگر علاقوں سے بتایا گیا ہے۔
اس واقعے کے وجوہات کے بارے میں تاحال حتمی طور پر کوئی واضح بات سامنے نہیں آ سکی ہے۔ کچھ لوگ اسے منگل (سنی) اور طوری (شیعہ) قبیلوں کے درمیان دیرینہ زمین کا تنازعہ قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ خالصتاً فرقہ وارانہ نوعیت کا معاملہ ہے۔ تاہم پارہ چنار کے سینیئر صحافی علی افضل افضال کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کا زمینی تنازعات سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو اساتذہ مارے گئے ہیں ان کا علاقہ ان حدود میں نہیں آتا جہاں زمینی تنازعات پر جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
کرم کے ایک سرکردہ قبائلی ملک عطاءاللہ خلجی کا کہنا ہے کہ گیدو اور پیواڑ قبائل کے مابین ایک عرصے سے پہاڑ کی ملکیت پر تنازعہ چلا آ رہا ہے جس نے اب سنگین صورت اختیار کر لی ہے لیکن بدقسمتی سے ہر مرتبہ جب یہ قضیہ سر اٹھاتا ہے تو اسے فرقہ واریت کا رنگ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں قبائل کے مابین گذشتہ دو سالوں میں ستر سے زائد جرگے ہو چکے ہیں اور کوئی دس سے زائد افراد مارے گئے ہیں لیکن آج تک اس معاملے کا کوئی حل سامنے نہیں آ سکا۔ انہوں نے کہا کہ محمد شریف گیدو کے علاقے سے آ رہا تھا اور اس پر حملہ شلوازان کی حدود میں کیا گیا جو بقول ان کے اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ وہی پہاڑی کی ملکیت کا معاملہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ‘دواؤں سے تنگ آ کر ڈرگز لینا شروع کیے’: قبائلی اضلاع میں جنگ کے بعد نفسیاتی بیماریاں بے قابو ہیں
ادھر ضلع کرم کے ضلعی پولیس سربراہ محمد عمران نے رابطہ کرنے پر نیا دور کو بتایا کہ ان کی تحقیقات کے مطابق اس واقعہ کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں بنتا بلکہ یہ مخالف شیعہ سنی قبائل کے درمیان کئی سالوں سے جاری زمینی شاملات کا تنازعہ ہے جس میں دونوں جانب سے کئی افراد مارے جا چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واقعے کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنائی گئی ہے جو بڑی تندہی سے کام کر رہی ہے بلکہ زیادہ تر تفتیش مکمل کر لی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک پچیس افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جس میں کچھ مشتبہ افراد بھی تھے جنہیں بعد میں رہا کر دیا گیا لیکن ان میں دو اہم ملزمان زیر حراست ہیں جن کا تشدد کے اس واقعے سے براہ رست تعلق بنتا ہے۔
دوسری طرف مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی طرف سے تاحال اصل ملزمان کا کھوج نہیں لگایا جا سکا ہے جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ علاقے کے ایک قبائلی ملک نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اس واقعہ کے اصل ملزمان وہ مسلح نقاب پوش تھے جنہوں نے سکول پر دھاوا بول کر اساتذہ کو ہلاک کیا۔ ان میں ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے جو واضح طورپر پولیس کی ناکامی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیری سمادھی سخت سکیورٹی کے حصار میں دوبارہ زیرِ تعمیر
اس واقعے کو دو ہفتے پورے ہونے کو ہیں لیکن اپر کرم کے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے تاحال بند ہیں۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں بدستور خوف و ہراس کی کیفیت برقرار ہے۔ اگرچہ مرکزی ٹل پارہ چنار شاہراہ اور کاروباری مراکز کھل گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک تناؤ کی فضا برقرار ہے۔
اس واقعہ کے اثرات دیگر علاقوں تک پھیلنے سے روکنے کے لئے شیعہ اور سنی سرکردہ مشران پر مشتمل ایک جرگہ بھی ہوا تھا جس نے تمام ہلاک شدگان کے گھروں میں جا کر فاتحہ خوانی کی جس سے کشیدہ ماحول میں کچھ بہتری آئی ہے۔
دریں اثنا ضلع کرم کی اساتذہ تنظیموں نے اپنے ساتھی معلمین کی ہلاکت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس مقام پر فائرنگ کا واقعہ ہوا وہاں قریب سکیورٹی چیک پوسٹیں بھی قائم ہیں لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اصل ملزمان بچ نکالنے میں کامیاب رہے۔
آل پرائمری سکولز ٹیچرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری غلام حیدر نے نیا دور کو بتایا کہ اس واقعہ کو دو ہفتے پورے ہو گئے لیکن ابھی تک بالائی کرم کے تمام تعلیمی ادارے بدستور بند ہیں جس سے طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔
عامر عباس طوری کا تعلق پارہ چنار سے ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ ماضی میں ضلع کرم میں زمینی تنازعات پر جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جنہیں بدقسمتی سے فرقہ وارانہ فسادات کا نام دیا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ آج کا نہیں 1960 کی دہائی سے چلا آ رہا ہے لیکن تری منگل کا واقعہ خالصتاً فرقہ وارانہ نوعیت اور دہشت گردی کی واردات تھی۔
انہوں نے کہا کہ مقامی انتظامیہ کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے وہ انتہائی ناقص ہے اس میں کسی کو ملزم نامزد نہیں کیا گیا ہے بلکہ نامعلوم رپورٹ درج کی گئی ہے جس سے یہ کیس انتہائی کمزور ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل نہیں کی گئیں حالانکہ جس بے دردی سے اساتذہ اور مزدوروں کو قتل کیا گیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دہشت گردی ہی کا تھا۔