’وزیر اعظم کا دماغ ہے کہ وہ گھگھو ہیں؟‘

’وزیر اعظم کا دماغ ہے کہ وہ گھگھو ہیں؟‘
سیاست میں گومگر کی کیفیت بہت سے مواقع پر فائدہ بھی دے جاتی ہے لیکن long run میں سودمند یہی ہے کہ سیاستدان، یا سیاسی جماعت ایک سیدھی لائن پکڑے اور پھر اس پر قائم رہے۔ تھوڑی بہت adjustments تو لازمی سی چیز ہے مگر بنیادی سوچ جماعت کی ایک ہونی چاہیے۔ اگر آپ ہر معاملے میں خود کو کنفیوژ ظاہر کریں گے تو بالآخر آپ سے متعلق لوگوں کا تاثر یہی بنے گا کہ آپ کنفیوژ ہیں۔

چودھری پرویز الٰہی نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیا، جس میں ان کا ایک انتہائی بنیادی سا سوال تھا کہ جب آپ انسانی ہمدردی کی بات کر رہے ہیں تو اس میں پیسوں کی بات کہاں سے آ گئی؟ عمران خان اور ان کی پوری جماعت پر واضح تھا کہ اگر نواز شریف واپس نہیں آئیں گے تو ان کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ یہ بھی صاف تھا کہ نواز شریف کی ذاتی ملکیت اور خاندان کے پاس اتنی پراپرٹی موجود ہے کہ 7 ارب روپے سے کہیں زیادہ حکومت اس پراپرٹی کو بحقِ سرکار ضبط کر کے وہ پیسے قومی خزانے میں بھر سکتی تھی، لہٰذا قوم کے پیسے مرنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔



سوائے اس ایک اعتراف کے جو وفاقی وزیر علی زیدی نے شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے غلطی سے کر ڈالا تھا کہ اگر ہم اپنے سپورٹرز کو مطمئن کرنے کے لئے پیسے مانگ رہے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے، پی ٹی آئی کے پاس یہ رخنہ ڈالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ اور اس سے یہ مراد ہرگز نہ لی جائے کہ یہ بھی کوئی معقول وجہ تھی۔ یہ پوری کی پوری حکمتِ عملی نامعقولیت پر مبنی تھی۔

ایاز امیر نے گذشتہ روز دنیا ٹی وی پر پروگرام تھنک ٹینک میں بات کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ پی ٹی آئی کون سی تنظیم ہے جیسے برطانیہ کی لیبر پارٹی نے اپنے ورکرز سے ووٹنگ کروائی ہو اور اتنے لوگوں نے ایک بات کی ہو، جبکہ باقی لوگوں نے دوسری۔ جس کے جی میں آئے ایک بٹن دبائے اور آپ کہہ دیں کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے؟ ’’مطلب وزیر اعظم صاحب کا کوئی دماغ بھی ہے یا وہ وہاں گھگھو بیٹھے ہوئے ہیں؟‘‘ یہ سب باتیں ایاز امیر صاحب کر رہے ہیں، جبکہ اب سے صرف ڈیڑھ سال پہلے وہ تحریکِ انصاف کی قصیدہ گوئی سے تھکتے نہ تھے۔

https://twitter.com/SyedaAyesha_Naz/status/1195445239047213057

پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت ہوں یا ایم کیو ایم کے اتحادی، سب نے حکومت سے کھل کر اختلاف کا اظہار بھی کر دیا اور اپنے دیگر اختلافات بھی سامنے لے آئے۔ اور آخر میں عدالت نے بھی عثمان ڈار کے سینے پر مونگ دلتے ہوئے 7 ارب کا نواز شریف 50 روپے کے حلف نامے پر چھوڑ دیا۔

اس حکومت سے کبھی کوئی انسیت نہیں رہی، اس بات کا اللہ شاہد ہے۔ مگر اب ترس آنے لگا ہے۔ وزیر اعظم دو دن کی چھٹی پر ہیں۔ اس سنہرے موقع کو انہیں رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے۔ انہیں اس retreat سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں، ان کے پاس کیا کیا اختیارات ہیں، انہیں کس حد تک بات کرنی چاہیے اور کہاں پر خود کو روک لینا چاہیے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں اپنی ٹرم کے آخر تک کیا کیا حاصل کرنا ہے اور اس کے لئے راستہ کیا لینا ہوگا۔ اگر اب تک جو کچھ کرتے رہے ہیں، وہ ٹھیک ہے، تو پھر کرتے رہیں جو جی میں آئے۔ لیکن اگر یہ کام نہیں کر رہا ہے تو اسے ٹھیک کرنا، پالیسی تبدیل کرنا بھی ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔

عمران خان کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ لائی لگ نہیں۔ وہ کنفیوژ نہیں ہیں۔ ان کا اپنا ایک دماغ ہے۔ وہ گھگھو نہیں ہیں، نہیں ہیں، نہیں ہیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.