گھڑی کے پیسے عمران خان کے قریبی دوست کے ذاتی جہاز میں پاکستان آئے، بنی گالا پہنچائے گئے

گھڑی کے پیسے عمران خان کے قریبی دوست کے ذاتی جہاز میں پاکستان آئے، بنی گالا پہنچائے گئے
سینئر صحافی اور تجزیہ کا ر حامد میر  نے سابق وزیراعظم عمران خان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گھڑی کی فروخت سے حاصل ہونے والے پیسے عمران خان کے عزیز دوست کے ذاتی طیارے میں دبئی سے اسلام آباد پہنچے۔ عمران خان کو ملنے والا تحفہ عمر فاروق کے پاس کیسے پہنچا؟عمران خان کو جواب دینے پڑیں گے۔

بدھ کے روز جیو نیوز کے مارننگ پروگرام میں سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ اگر ایک نایاب تحفہ ہو جو دنیا میں صرف ایک ہی ہے۔ اس پر خانہ کعبہ کہ تصویر بھی ہو اخلاقی طور پر آپ کو وہ تحفہ اپنے پاس رکھنا چاہیے تھا۔اسلام آباد کے نیشنل میوزیم کو دے دیتے کہ عوام آکر دیکھے کہ سعودی ولی عہد کی جانب سے کس قدر خوبصورت تحفہ دیا گیا  لیکن آپ نے اس کو بیچ ہی دیا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ  پی ٹی آئی اس ساری کہانی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے۔ شہزاد اکبر نے سرے سے ہی عمر فاروق ظہور سے شناسائی سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں تو انہیں زندگی میں کبھی ملا ہی نہیں ۔ ایک قمتی تحفہ جو آپکو سعودی شاہی خاندان کی جانب سے ملا وہ آپ نے اپنی 'فرنٹ وومن' کو دبئی بھیج کر وہاں سے ایک کاروباری شخص کو ڈھونڈ کر اصل قیمت سے بھی بہت کم میں فروخت کروا دی۔ کوڑیوں کے دام فروخت کی اور اس کی یہاں مقامی قیمت لگوا کر اس کا 20 فیصد  بتایا جو بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔

انہوں نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اپنے اور اپنی پارٹی پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو بغیر کسی ثبوت کے لفافہ کہتے ہیں لیکن ایک صحافی ثبوت کے ساتھ گھڑی کا خریدار منظرعام پر لایا ہے آپ ان ثبوتوں کو  جھوٹی کہانی کہہ رہے ہیں۔ آپ  نے خود  پیسوں سے بھرا بیگ لیا۔ اب قوم کو یہ تو جواب دیں کہ وہ رقم کہاں کہاں لگائی۔ 2 ملین ڈالرز کہاں کہاں استعمال کئے جواب تو دینا ہو گا۔

حامد میر نے فیصل واوڈا اور عمر فاروق کی ایک ساتھ تصویر کے حوالے سے کہا کہ یہ اعتراف تو عمر فاروق نے کیا ہے کہ اس کا شہزاد اکب سے رابطہ اس لئے تھا کیونکہ تحریک انصاف کے کئی لوگو ں کے ساتھ ان کی دوستی ہے۔ اب اصل بات تو یہ ہے کہ سعودی ولی عہد کی جانب سے دیا گیا قیمتی تحفہ اس وقت عمر فاروق کے پاس ہے یا نہیں۔ انہوں نے دکھایا یا نہیں، دکھا دیا نا کیمرہ پر۔ ان کے پاس ہے تو اس کا مطلب آپ نے بیچا ہے نا۔ ضروری یہ ہے کہ عمران خان کو ملنے والا تحفہ عمر فاروق کے پاس کیسے پہنچا۔

حامد میر نے  انکشاف کیا گھڑی کو فروخت کرنے سے جو رقم ملی وہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے بہت عزیز دوست کے ذاتی جہاز میں دبئی سے پاکستان آئی اور اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں پہنچی۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ یہ بات تو ہضم ہی نہیں ہوتی کہ وہ پیسے وہیں تھے اور فرح گوگی نے استعمال کئے۔ لیکں ان کی ایک ویڈیو بھی موجود ہے جس میں انہوں نے بتایا تھاکہ انہوں نے توشہ خانہ کے پیسوں سے بنی گالہ کی سڑکیں ٹھیک کروائیں تو اس کا مطلب دبئی سے پیسے پاکستان آئے تھے نا اور اسلام آباد میں کسی کرنسی ایکسچینج سے  اس کرنسی کو تبدیل بھی کروایا گیا ہوگا۔ اسی سے سڑک ٹھیک کروائی ہو گی نا۔

حامد میر نے مزید کہا کہ جب آپ نے سڑک بنوائی تو کتنے پیسے لگے؟ آپ نے جب اثاثے ڈکلئیر کئے تو یہ کیوں چھپایا؟ اب یہ وہ سوالات ہیں جن کے عمران خان کو جواب دینے پڑیں گے۔

گزشتہ شام توشہ خانہ کیس میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ توشہ خانہ کیس کے سب سے مہنگے سیٹ کا خریدار سامنے آ گیا۔ نایاب گھڑی سمیت پورا سیٹ 28 کروڑ پاکستانی روپے میں خریدا۔جیو نیوز کے پروگرام ‘آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ’ میں توشہ خانہ کیس میں سب سے مہنگے سیٹ کو خریدنے والی شخصیت نے بڑے انکشافات کیے ہیں جو آنے والے دنوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے لئے شدید مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔

پروگرام کے میزبان شاہزیب خان زادہ کے ساتھ دبئی کی اہم کاروباری شخصیت عمر فاروق ظہور نے گفتگو کی ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ 2019 میں انہوں نے یہ سیٹ خریدا تھا۔ عمر فاروق نے بتایا کہ یہ سیٹ انہوں نے اس لئے خریدا کہ وہ مہنگی اور نایاب گھڑیوں کے شوقین ہیں۔ یہ گھڑی چونکہ گراف کپمنی کی تیار کردہ تھی اور یہ لیمیٹڈ ایڈیشن تھا اس لئے انہوں نے یہ سودا کیا۔

عمرفاروق نے بتایا کہ ان کے عمران خان حکومت کے سابق مشیر داخلہ مرزا شہزاد اکبر سے پرانی واقفیت تھی جس کی بنیاد پر 2019 میں شہزاد اکبر نے ان کو کال کر کے اس گھڑی کے بارے میں بتایا۔ "شہزاد اکبر نے بتایا کہ یہ گھڑی لیمیٹڈ ایڈیشن ہے جو سعودی شاہی خاندان نے خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان کے لئے بنوائی تھی اور ان کو سعودی عرب کے دورے پر تحفے میں ملی تھی۔”

کاروباری شخصیت کے مطابق عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوست اور دست راست فرح گوگی اس گھڑی کو لے کر دبئی آئیں اور ان سے ان کے آفس میں ملاقات کی۔ فرح نے ان کو گھڑی کے بارے میں معلومات دیں اور ساتھ میں گھڑی کے حوالے سے ضروری سرٹیفکیٹ بھی دیے۔ فرح نے یہ بھی بتایا کہ یہ گھڑی عمران خان کو تحفے میں ملی تھی۔

عمر فاروق کے مطابق جب وہ گھڑی لے کر بازار گئے تو ان کو بتایا گیا کہ یہ گھڑی ایک ماسٹر پیس ہے اور اس گھڑی کی قیمت 10 سے 15 ملین ڈالر ہو سکتی ہے۔ ان کو بتایا گیا کہ اگر آپ کو یہ گھڑی 5 سے 6 ملین ڈالر میں مل سکتی ہے تو یہ ایک مناسب اور منافع والا سودا ہوگا۔

انہوں نے فرح کے ساتھ گھڑی کی خریداری کے لئے سودے بازی کی تو ان کی بات 20 لاکھ ڈالر میں طے ہو گئی۔ عمر فاروق کے مطابق فرح یہ گھڑی 5 ملین ڈالر تک بیچنا چاہتی تھیں مگر ان کو پیسوں کی ضرورت تھی، اس لئے وہ 2 ملین ڈالر پر راضی ہو گئیں۔ انہوں نے فرح کو یہ رقم کیش میں دی اور رقم کی ادائیگی درہم میں کی گئی جو کہ 750 ملین درہم بنتی تھی۔

شاہزیب خان زادہ نے سوال کیا کہ آپ کے پاس گھڑی کی خریداری کا کیا ثبوت ہے؟ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ گھڑی ان کے پاس موجود ہے اور ان کے پاس رقم اور گھڑی کی خریداری کے ثبوت اور متعلقہ کاغذات بھی موجود ہیں۔

گھڑی سے ملنے والی رقم 2 ملین ڈالر تھی جو کہ اس وقت کے ڈالر کے ریٹ کے حساب سے پاکستانی کرنسی میں 28 کروڑ روپے بنتی ہے جب کہ عمران خان نے یہ گھڑی توشہ خانہ سے سوا دو کروڑ روپے کی خریدی تھی۔

عمر فاروق کا کہنا تھا کہ گھڑی خریدنے کے بعد شہزاد اکبر نے ان کو مالی تعاون کے لئے اور مختلف خدمات حاصل کرنے کے لئے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ جب انہوں نے ان کو سہولیات فرہم کرنے سے انکار کر دیا تو شہزاد اکبر ان سے ناراض ہو گئے اور پاکستان میں ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروح کروا دیں۔

عمر فاروق کا کہنا تھا کہ وہ اس گھڑی کی خریداری کے متعلق ثبوتوں اور دستاویزات کے ساتھ پاکستان کی عدالتوں میں بھی آنے کو تیار ہیں۔