شارجہ کا میدان تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ کوئی سبز ہلالی پرچم لے کر آیا ہوا تھا تو کوئی بھارتی ترنگے کے ساتھ، ڈھول تاشوں کی تھاپ سے پورا میدان گونج رہا تھا۔ مقابلہ تھا پاکستان اور بھارت کا، دو روایتی حریف پھر ایک بار فائنل میں ٹکرا رہے تھے۔ عمران خان قومی ٹیم کی قیادت کررہے تھے۔ 18اپریل 1986کو کھیلے جانے والے اس بڑے مقابلے میں ٹاس پاکستان نے جیتا اور ہدف کے تعاقب کا ارادہ کیا۔
اُس وقت تک پاکستان کا بھارت کے مقابلے میں کسی بھی ٹورنامنٹ میں ریکارڈ کچھ زیادہ متاثر کن نہیں تھا ۔ کیونکہ شارجہ کے اسی میدان پر دو سال پہلے دونوں ٹیموں کا ایک اور ٹورنامنٹ کے فائنل میں تصادم ہوا تو پاکستانی ٹیم 125رنز کے تعاقب میں صرف 87رنز پر آؤٹ ہو کر میدان بدر ہوچکی تھی۔ یہ وہی میچ تھا جس میں عمران خان کی کاٹ دار ان سوئنگ بالنگ کے نتیجے میں ان کے نام کے ساتھ 14رنز کے بدلے 6 بھارتیوں کا شکار لکھا تھا لیکن پاکستانی بیٹنگ لائن تاش کے پتوں کی طرح بکھرتی چلی گئی۔
اسی طرح1985 میں آسٹریلیا میں ہونے والے منی ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی پاکستانی ٹیم کو بری طرح شکست کا غم بھارت کے ہاتھوں ہی سہنا پڑاتھا۔
آسٹریلیشیا کپ کے اس فائنل میں پاکستان کا ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ اس وقت غلط ثابت ہورہا تھا جب اسکور بورڈ پر بھارت نے 7وکٹیں کھو کر 245 سجا دیے تھے۔ یہ اُس دور میں وہ مجموعہ ہوتا، جو کسی بھی ٹیم کو ذرا سی محنت سے فاتح یاب کردیتا۔ پاکستانی بیٹنگ آئی تو حسب روایت ’تو چل میں آیا ‘ کے مصادق کھلاڑی آتے گئے اور جاتے گئے۔ کیا سلیم ملک، کیا محسن خان، کیا مد ثر نذر اور کیا رمیز راجا سب ہی پچ پر ’مہمان اداکار‘ بن کر جلوہ افروز ہوتے گئے، جن کی غیر معمولی لاپرواہی دیکھ کر لگا جیسے ڈریسنگ روم میں ان کا کوئی منتظر ہے لیکن ان سب کے درمیان جاوید میاں داد تن تنہا وکٹ پر سیسہ پلائی کی دیوار کی طرح کھڑے تھے ۔جو کسی بھی مرحلے پر بھارتی بالرز کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں ہوئے۔
110 رنز پر جب 4پاکستانی کھلاڑی آؤٹ ہو کر ڈریسنگ روم میں آرام کررہے تھے تو کپتان عمران خان نے خود آنے کے بجائے عبدالقادر کو مار دھاڑ کے لیے میدان میں اتارا۔ درحقیقت یہ فیصلہ سود مند ثابت ہوا۔ عبدالقادر نے وکٹ کے چاروں طرف ایسے شارٹس کھیلے کہ بھارتی بالرز اور فیلڈرز کے ہاتھ پیر پھولنا شروع ہوگئے۔ ادھر جاوید میاں داد نے رنز بنانے کی تمام تر ذمے داری عبدالقادر کو دی اور خود دانش مندانہ انداز میں اپنی وکٹ بچاتے گئے۔ دونوں کے درمیان 71رنز کی ایسی شراکت ہوئی، جس نے میچ کا پلڑا پاکستان کے حق میں ڈال دیا۔ عبدالقادر 34رنز بنا کر میدان چھوڑ رہے تھے تو پاکستان کو کپ پر قبضہ جمانے کے لیے اب بھی مزید 65 رنز کی ضرورت تھی لیکن فی اوور رن بنانے کی اوسط آسمان سے باتیں کرنے پر مجبور تھی۔
پاکستانی تماشائی اُس وقت اور زیادہ مایوس ہوگئے جب عمران خان اور منظور الہی215رنز پر جاوید میاں داد کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ یعنی 7وکٹیں گرچکی تھیں۔ اس مرحلے پر وسیم اکرم اور جاوید میاں داد کے درمیان قیمتی اور اہم 21رنز کی مختصر شراکت ہوئی، جس میں وسیم اکرم کا حصہ صرف3رنز تھا۔ جاوید میاں داد سنچری اسکور کرچکے تھے اور ان کی وکٹ پر موجودگی سے پاکستانی ٹیم اور تماشائیوں کے امید کے چراغ ٹمٹائے نہیں تھے۔
اب یہاں بھارتی کپتان کپل دیوکا حساب کتاب کچھ الٹ پلٹ ہوگیا، خود کا آخری اوور رکھنے کے بجائے صورتحال یہ ہوگئی کہ چیتن شرما کو اس اوور کے لیے طلب گیا، جن کو ہر صورت میں 6گیندوں پر 11رنز بنانے سے پاکستانی ٹیم کو روکنا تھا۔ کپل دیو خاصے پرعزم تھے، جنہیں یہ یقین تھا کہ نوجوان بالر ان کے خواب کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔
پہلی ہی گیند پرجاوید میاں داد دوسرا رن لینے کی کوشش میں وسیم اکرم کی جدائی کا صدمہ برداشت کرگئے۔ دوسری گیند پر میاں داد نے ایسا کڑاکے دار چوکہ مارا کہ بھارتی فیلڈرز کو اپنی جگہ سے ہلنے تک کا موقع نہیں ملا۔ اب 4گیندیں باقی تھیں اور جیت کے لیے 6رنز درکار تھے۔ چیتن کی اگلی گیندپر جاوید میاں داد کا شارٹ جو چوکے کی جانب بڑھ رہا تھا، راجر بینی نے ایسی قلا بازی کھا کر گیند کو دبوچا کہ میاں داد صرف ایک ہی رن لے پائے۔ اس سے زیادہ تو پریشانی یہ تھی کہ اب جاوید میاں اسٹرائیک چھوڑ کر نان اسٹرائیک پر پہنچ گئے تھے۔ وکٹ کیپر ذوالقرنین کو بس صرف ایک رن لے کر میاں داد کو کھیلنے کا موقع دینا تھا لیکن یہاں انہوں نے غیر ضروری جلد بازی کی اور بولڈ ہوگئے۔ پاکستان کی 9وکٹیں گرچکی تھیں جبکہ آف اسپنر توصیف احمد کو اب اگلی گیند پر ہر صورت میں اسٹرائیک جاوید میاں داد کو دینی تھی۔
کپل دیو جانتے تھے کہ ان کی جیت اور ہار کے درمیان بس یہی گیند ہے، اگر توصیف احمد کی وکٹ گرادی تو کپ ان کا، اسی لیے بھارتی فیلڈرز رن نہ دینے کے ارادے سے توصیف احمد کے آس پاس پھیل گئے۔ چیتن شرما کی یہ گیند جیسے ہی توصیف احمد کے بلے سے چھوئی تو وہ سرپٹ بھاگ پڑے، جاوید میاں داد تو پہلے ہی تیار تھے۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ اظہر الدین ایک یقینی رن آؤٹ نہ کرسکے حالانکہ بس انہیں گیند بالر کو دینی تھی لیکن یہ آسان کام بھی نہ ہوسکا۔
اب جاوید میاں داد کریز پر تھے۔ آخری گیند پھینکی جانی تھی اور 4 رنز درکار تھے۔ جاوید میاں داد نے چاروں طرف پھیلے فیلڈرز کو دیکھا، وہ اس بات کو جانتے تھے کہ چیتن شرما یقینی طور پر انہیں یارکر گیند کراکے اسٹروک کھیلنے سے محروم رکھیں گے۔ اسی لیے وہ وکٹ سے دو قدم آگے آکر کھڑے ہوگئے۔
ٹی وی کمنٹیٹر افتخار احمدکی آواز کانوں میں گونج رہی تھی۔ دھڑکنیں بے ترتیب ہورہی تھیں۔ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ سب وہ تاریخی منظر دیکھنے کو تیار تھے ، جو کسی ایک ٹیم کو جیت اور کسی کو ہا ر کا زخم دے سکتا تھا۔ چیتن شرما نے پھینکی تو ’ یارکر ‘ ہی تھی لیکن میاں داد نے کمال مہارت سے اسے فل ٹاس ایسا بنایا کہ گیند فضا میں تیرتی ہوئی تماشائیوں کے اسٹینڈ میں جا گری۔ ٹی وی کمنٹیٹر افتخار احمد نے باقاعدہ چیخ کر بتایا کہ یہ چھکا ہے اور پاکستان آسٹریلیشیا کپ جیت گیا ہے۔
جاوید میاں داد نے فاتحانہ انداز میں بلا لہرایا۔ جبکہ توصیف احمد اور وہ بھاگتے دوڑتے ڈریسنگ روم آرہے تھے۔ جہاں ان کا استقبال کرنے کے لیے پاکستانی تماشائی خود میدان میں آدھمکے تھے۔ اس افرا تفری کے دوران توصیف احمد کو پولیس اہلکاروں کے ڈنڈے بھی کھانے پڑ گئے۔ فرط جذبات سے کئی آنکھیں نم تھیں، کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ پہاڑ جسے سر کرنا مشکل اور دوبھر لگ رہا تھا میاں داد کی نپی تلی بیٹنگ سے عبور کرلیا گیا ۔
جاوید میاں داد کا کہنا ہے کہ میدان سے ہوٹل تک ایک ہجوم تھا، جس نے نعرے لگاکر اپنے جوش و خروش کا مظاہر ہ کیا۔ وہ ہوٹل آکر سو گئے تبھی شارجہ میں کرکٹ کا رونق میلہ لگانے والے عبدالرحمان بخاطر آئے، جنہوں نے بتایا کہ ہوٹل کی لابی میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے، نیند کے عالم میں میاں داد نے ان کی محبتوں اور نوازشوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے رخ کیا۔ ان کے مطابق انہوں نے اس اننگ کے دوران کبھی بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ بلکہ انہیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ آخر تک وکٹ پر رہے تو میچ کا نقشہ بدل سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ مرد بحران جاوید میاں داد کی اس شاندار کارکردگی پر اُ س وقت کی حکومت، ان کے بینک اور مخیر حضرات نے کئی اعزازات سے نوازا۔ جبکہ بشریٰ انصاری کا پیروڈی گیت ’ایک چھکے کے جاوید میاں داد‘ کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔
چیتن شرما آج بھی اس چھکے کی وجہ سے بھارتیوں کے طعنے اور تمسخر کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ جنہوں نے اس میچ کے بعد عالمی کپ1987 میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہیٹ ٹرک بھی کی لیکن اپنے ہم وطنوں کے دل میں کوئی نرم گوشہ بنا نہیں سکے۔ اس بات کا شکوہ وہ کئی بار مختلف انٹرویوز میں کرچکے ہیں۔ جاوید میاں داد کا بلا خطیر رقم میں نیلام بھی ہوا، جس کے بارے میں بعد میں وسیم اکرم نے انکشاف کیا کہ وہ بلا انہوں نے میچ کے دوران جاوید میاں داد کو دیا، جس کے ذریعے انہوں نے آخری گیند پر فلک شگاف چھکا جڑا تھا۔
اس تاریخی چھکے نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی تاریخ ہی بدل دی۔ جس کے بعد پاکستان نے بھارت کو ہر میدان میں روند ڈالا۔یہاں تک کہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے جب1987میں بھارت کا دورہ کیا تو وہاں بھی پاکستان کا پلہ بھاری رہا۔ 6 میچوں کی ون ڈے سیریز میں پاکستان نے 5ایک کی بھارت کو شکست سے دوچار کیا۔ جبکہ بنگلور کے آخری ٹیسٹ میں 16رنز سے بھارت کو ہرا کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ایک بھارت ہی کیا، عمران خان کی قیادت میں برطانیہ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف بھی یادگار کارکردگی ہر کسی کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ پاکستان کی اس غیر معمولی کارکردگی کی بنا پر اسے عالمی کپ کا مضبوط امیدوار قرار دیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان 1987کے عالمی کپ کے سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے 18رنز سے شکست کھا بیٹھا۔