کیا حکومتی فلاحی پروگرام میں شمولیت پاکستانی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو معاشی استحکام مہیا کر پائے گی؟

کیا حکومتی فلاحی پروگرام میں شمولیت پاکستانی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو معاشی استحکام مہیا کر پائے گی؟
معاشی مسائل اتنے بڑھ گئے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے معاشرے کی ہر کمیونٹی بری طرح  متاثر ہو رہی ہے۔ پیسے کی دوہری تقسیم سے امیر، امیر تر اور غریب، فاقوں پر آ گیا ہے۔ ان حالات میں چند پیسوں کی مالی امداد ایک ٹھنڈے ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔

ملک میں معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا اہم مسئلہ قومی شناخت کا ہے۔ جس میں زیادہ متاثر ہونے والوں میں ’خانہ بدوش اور خواجہ سرا‘ ہیں۔ جہاں قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لئے خانہ بدوشوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری جانب خواجہ سرا کو حال ہی میں ٹرانس جینڈر پروٹیکشن بل کے تحت شناختی کارڈر کے لئے میڈیکل سرٹیفیکٹ پر ان کی جنس کا تعین لازم و ملزم کرنا اہم مسئلہ بنتا نظر آ رہا ہے۔ قومی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے یہ دونوں کمیونٹیز حکومت کے بہت سے فلاحی پروگرامز سے محروم رہ جاتی ہیں۔

حال ہی میں بینظیر کفالت پروگرام میں خواتین کے ساتھ ساتھ خواجہ سراؤں کو بھی اس پروگرام میں شامل کرنا حکومت کی جانب سے اچھا اقدام ہے۔

سوال یہ ہے کہ شناختی کارڈ میں ’خواجہ سرا ‘ کے ساتھ  ’(مرد)خواجہ سرا اور (عورت)’خواجہ سرا ‘  ان میں سے کس کو بینظیر پروگرام کا حصہ بنایا جا ئے گا کیونکہ بینطیر انکم سپورٹ پروگرام خواتین کے لئے ہے۔ دوسری اہم بات کیا جن خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈز میں صرف خواجہ سرا(x) کی جنسی شناخت ہے کیا وہ اس پرگرام کا حصہ بننے کے لئے اپنا نیا شناختی کارڈ بنوائیں گے؟

وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ اورچیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شازیہ مری نےحال ہی میں کراچی آرٹ کونسل میں ایک تقریب میں خواجہ سراؤں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کےدھارے میں شامل کرنے کا اعلان کیا اور خواجہ سراؤں میں 7، 7ہزار کی رقم تقسیم کی۔

اس موقع پر وفاقی وزیر فیصل کریم کنڈی نے موقف دیاکہ ’بینطیر انکم سپورٹ پروگرام میں اس نقطہ کو واضح کر دیا گیا ہے کہ جن کے شناختی کارڈ پر خواجہ سرا (x) بھی لکھا ہوا ہے وہ بھی اس پروگرام کا حصہ ہوں گے۔ اس نقطہ کو واضح کرنا اس لئے ضروری ہے کہ حال ہی میں ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کی وجہ سے اس حوالے سے دو رائے پائی جا رہی ہیں کہ شاید بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا حصہ صرف وہی خواجہ سرا بنیں گے جن کے پاس نیا شناختی کارڈ ہو گا‘۔

نیا شناختی کارڈ ہے کیا؟ نئے قانون کے تحت خواجہ سرا نادرا آفس میں اپنے شناختی کارڈ کے ساتھ مرد(خواجہ سرا) یا عورت(خواجہ سرا ) درج کروائیں گے۔ فیصل کنڈی نے مزید کہا ’حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ایجنڈے کے مطابق ’جن خواجہ سرا کے پرانے شناختی کارڈر بنےہیں اور جو نیا شناختی کارڈ بنائے گا یہ دونوں بینظیر انکم سپورٹ پرگرام کے اہل ہیں‘۔ خواجہ سرا اپنے قریبی بینظیر کفالت کے دفاتر میں جا کر اپنا اندارج کروا نے کے پابند ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام / بے نظیر کفالت پروگرام (بی آئی اِیس پی) حکومتِ پاکستان کا ایک فلاحی پروگرام ہے جس کے تحت پاکستان کے تمام اضلاع میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی خواتین کو ہر چھ ماہ بعد 14000 روپے کا وظیفہ فراہم کیا جاتا ہے۔یہ پروگرام آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی جاری ہے۔

چیئر پرسن نیشنل کمیشن ہیومن رائٹس ربعیہ جاویری آغا کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو بھی حکومت نے فلاحی پروگرام کا حصہ بناکر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔حکومت کے اس عمل سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو معاشرے میں ان کا مقام دلوانا بہت ضروی تھا۔ یہ وہ طبقہ ہے جو  معاشرے میں کئی دہائیوں سے پس رہا ہے۔

https://twitter.com/RabiyaJaveri/status/1619600117467856896?s=20&t=A1cFFqVnGhevqys2_7hx4Q

ٹرانس جینڈر ڈاکٹرسارہ  گل  نے موقف دیا کہ ’حکومت کی جانب سے ایک اچھا اقدام ہے۔معاشی مسائل بدتر ہوتے جا رہے ہیں ایک مخصوص رقم سے تبدیلی تو نہیں آئے گے مگر اس سے کچھ تو سہارا ملے گا۔میرا حکومت سے ایک سوال ہے کہ کیا انہوں نے سوچا ہے کہ وہ ہماری کمیونٹی کو لینے والے کی بجائے دینےوالے کیسے بنا سکتی ہے۔حکومت ہمارے لئے ایسے ادارے بنائے جہاں ہم کوئی ہنر سیکھ سکیں اور ہمارے تعلیمی اداروں کو بھی بہتر بنائیں۔اگر حکومت ہماری معاشی امداد کے ساتھ ساتھ ہماری آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت جیسے پروگرام کا آغاز کردے تو ہم بھی مستقبل میں ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے‘۔

جولائی 2022کو نادرا کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق   نادرا کے ڈیٹا بیس میں 2ہزار978 شناختی کارڈر رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے 1ہزار856نئے شناختی کارڈ بنائے گئے۔نادرا کےمطابق 1ہزار35مرد خواجہ سرا نے شناختی کارڈ بنوائے جبکہ 87عورت خواجہ سرا قومی ڈیٹا بیس میں شامل ہوئے ہیں۔

انسانی حقوق کی  کار کن  خواجہ سرا زنایہ کا کہنا ہے کہ’ایک طرف توہم قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور دوسرے طرف حکومت ہمیں بینظیر کفالت پروگرام میں شامل کر رہی ہے۔  جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی  قانونی جنگ کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ہم عدالت میں مقدمہ لڑ رہے ہیں کہ شناختی کارڈ کے حصول کے لئے میڈیکل سرٹیفکٹ کو پروٹیکشن بل میں سے خارج کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عام پاکستانی کو شناختی کارڈ میں اپنی جنس کے تعین کے لئے اگر میڈیکل رپورٹ کی ضرورت نہیں تو ہمیں کیوں؟زنایہ نے مزید بتایا کہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ کہیں تو حکومت نے ہمیں تسلیم کیا۔ بینظیر کفالت پروگرام میں خواجہ سرا کو تین مہینےبعد 7ہزار ملیں گے جس ہماری کمیونٹی کے وہ افراد جو بزرگ ہونے کی وجہ سے محنت مزدوری نہیں کر سکتے ان کے لئے یہ کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ ‘

ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ فرزانہ باری کا کہنا کہ کہ بینظیر کفالت پروگرام میں خواجہ سرا کو شامل کرنا حکومت کی طرف سے ایک مثبت عمل ہے۔اس سے خواجہ سرا برادری کی احساس مرحومی کسی حد تک کم ہو گی۔انہوں نے مزید کہا کہ خواجہ سرا کی چونکہ عرب ممالک میں پابندی ہےتو ان میں شناختی کارڈ بنانے کا رجحان کم ہے ۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی وجہ سے ان میں شناختی کارڈ بنوانے کا رجحان بڑھ جائے گا جس سے وہ مزید فلاحی پروگرامز کا حصہ بن سکیں گے۔

ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کیا ہے ؟

ستمبر 2020کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے ٹرانس جینڈر رائٹس ایکٹ منظور کیا ہ جس میں خواجہ سراؤں کے تحفظ، انہیں مساوی حقوق، تعلیم، صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی، قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر اپنی جنس خواجہ سرا لکھوانے، ووٹ اور الیکشن لڑنے کا حق دیا گیا۔قومی شناخت کی بات کی جائے تو حکومت نے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ میں خواجہ سراؤں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ خود اپنی جنس کی شناخت کر سکتے ہیں اور اسے تبدیل کروا سکتے ہیں۔ خواجہ سراکی جنسی شناخت ہی شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ پر درج کی جائے گی۔یہ بل 2018میں تحریک انصاف نے پہلی بار پیش کیا تھا۔

ربعیہ جاویری  آغا کاکہنا ہے کہ ’جہاں تک ٹرانس جینڈر بل کی بات ہے تو اس بل کو سسٹم کا حصہ بننے میں کچھ وقت لگے گا۔ٹرانس جینڈر ایکٹ میں یہ واضح ہے کہ خواجہ سرا شناختی کارڈ  میں اپنی جنس مر د یا عورت (خواجہ سر ا)کے ساتھ ضرور لکھوائیں ۔خواجہ سرا کو آج بھی سب سے زیادہ مسئلہ بین الاقومی سفر،ححج اور عمرہ کی ادائیگی میں پیش آتا ہے ۔قانون کے مطابق اگر ان کی شناختی دستاویزات مکمل ہوتی ہیں تو وہ وقت دورنہیں جب حکومت بین الاقومی سطح پر بھی ان کے معاملات کو آسان بنانے کے لئے مزید  اقدامات کرے گی ‘۔

سارہ گل کا کہنا ہے کہ ’شناختی کارڈ کے حوالے سے کیا بات کروں؟ میری نظر میں ٹرانس جینڈر ایکٹ ایسا قانونی مسودہ ہے جس کو  حکومت اور اس بل کی مخالف پارٹی دونوں ہی نہیں چاہتے کہ ٹرانس جینڈر کے مسائل حل ہوں۔ مجھے ان  دونوں کے موقف میں تضاد نظر آتا ہے ہے۔ یاد رہےسارہ گِل پاکستان کی پہلی خواجہ سرا، جنہوں نے ڈاکٹری کی تعلیم جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے مکمل کی ۔ بعدازاں سندھ حکومت کی جانب سے خواجہ سرا ڈاکٹر سارہ گل کو جے پی ایم سی میں ہاؤس جاب دی گئی جوکہ مکمل ہونے کے مرحلہ میں ہے۔

پاکستان میں خواجہ سرا برادری کو مختلف سرکاری شعبوں میں نوکریوں کے لیے زیر غور لائے جانے کے بعد  تکنیکی تعلیم کے حصول میں بھی انہوں نے اپنی کاوشوں کو تیز کر دیا ہے ۔ پروٹیکشن بل رائٹ ایکٹ2018 کے تحت وفاقی پولیس کے ادارے میں خواجہ سراؤں کو بھی دیگرمرد اور خواتین امیدواروں کی طرح انٹری ٹیسٹ، میڈیکل اور انٹرویو میں کامیابی حاصل کرنا لازمی ہوگا۔

قومی شناخت کا حق پاکستان میں رہنے والے ہر فرد کو حاصل ہے۔حکومت کو چاہیے کہ معاشرے کی ہر وہ کمیونٹی جو قومی شناخت نہ ہونے کی وجہ معاشی،سماجی اور اقتصادی محرومیوں اور پستی کی شکار ہو رہیں ہیں انہیں قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔

وجیہہ اسلم صحافت سے وابستہ ہیں۔