مہنگائی نے یوں تو پوری دنیا کو متاثر کیا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی یہ صورت حال ہے کہ امیر طبقے کو چھوڑ کر دیگر تمام طبقے ایک وقت کھانا کھا کر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ دوسرے وقت کیا کھائیں گے۔ مڈل کلاس طبقہ تو تقریباً ختم ہو کر غریب طبقے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اگر دیہاڑی دار مزدور طبقے کی بات کریں تو بس خدا کی مدد کے سہارے اور اس کی آس میں ان کی زندگی بسر ہو رہی ہے۔
ایک روز نارووال میں مقیم ایک وکیل دوست سے بات ہو رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کی ایک عزیزہ سرکاری سکول میں استانی ہے، اس کی عزیزہ نے چند دن قبل ایک بچی کو کلاس میں روتے ہوئے دیکھ کر اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کا باپ دیہاڑی دار مزدور ہے مگر پچھلے چند دنوں سے اسے کوئی کام نہیں ملا اور اس وجہ سے روزانہ اس کے گھر میں ماں اس کے باپ سے لڑتی ہے کیونکہ گھر میں کھانے کو آٹا نہیں ہے اور پچھلے کچھ دنوں سے انہوں نے پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا۔
اس کے علاوہ ہم ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ دیکھ رہے ہیں یا پڑھ رہے ہیں کہ سستا آٹا یا راشن لیتے ہوئے بھگدڑ مچی اور اتنے افراد جان کی بازی ہار گئے۔ کیسا المیہ ہے کہ جس جان کو بچانے کی تگ و دو میں وہ قطاروں میں لگے تھے اسی جان کی بازی ہار گئے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ زرعی طور پر خود کفیل ملک میں رہنے کے باوجود عوام آٹے کے لیے نا صرف دھکے کھا رہے ہیں بلکہ موت کے منہ میں بھی جا رہے ہیں۔
اس ساری صورت حال میں ایسے بھی کچھ لوگ ہیں جنہیں آنکھ بھر شرم بھی نہیں آ رہی اور وہ ہمارے حکمران اور طبقہ اشرافیہ کے افراد ہیں۔ سیاست دان بھلے ان کا تعلق اپوزیشن سے ہو یا حکمران اتحاد کے ساتھ، ایک دوسرے کے خلاف اور اپنے اپنے ناپسندیدہ اداروں کے خلاف دن رات ہرزہ سرائی کرنے میں مصروف ہیں۔ ان سب کی بھاگ دوڑ اور تمام تر توانائیاں کرسی کے لیے صرف ہو رہی ہیں، عوام جائیں بھاڑ میں۔ ان کی اپنی تجوریاں اسی طرح بھری جا رہی ہیں جیسے پہلے بھرا کرتی تھیں اور غریب ایک ایک نوالے کو ترس رہا ہے۔ موقع کی مناسبت سے ایک شعر یاد آ گیا؛
؎ غریبِ شہر ترستا ہے اک نوالے کو
امیرِ شہر کے کتّے بھی راج کرتے ہیں
ملک میں عارضی حکومت کے قیام کے بعد چند اہم عہدے ہمیشہ کی طرح قریبی رشتہ داری کی بنیاد پر بانٹے گئے جیسے کہ وزیر خزانہ کا عہدہ ڈار صاحب کو عنایت کیا گیا۔ ڈار صاحب نے آتے ہی اعلان کیا کہ بس اب کرنسی کی قدر میں استحکام آ جائے گا اور ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں فوری طور پر کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ اس کے برعکس شاید تاریخ میں ڈالر اتنی جلدی نہیں چڑھا یا یوں کہنا چاہئیے کہ اتنی جلدی پاکستانی روپے کی قدر اتنی زیادہ کم نہیں ہوئی جس قدر ڈار صاحب کے موجودہ دور میں ہوئی ہے۔
حکومت تو ویسے ہی چوں چوں کا مربّہ ہے۔ فی الوقت سب مزے لے رہے ہیں اور جب کوئی اور حکومت آ گئی تو اپنی ناکامیوں کا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال کر رفوچکر ہو جائیں گے جیسا کہ ہر دفعہ ہر حکومت کرتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ابھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور اداروں پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے سب مل بیٹھیں اور کوئی لائحہ عمل بنائیں جس سے ملک کی برآمدات بڑھائی جا سکیں تاکہ کاروباری طبقے کا اعتماد بحال ہو سکے اور کسانوں سے بات چیت کر کے ان کے مسائل حل کر کے زراعت کے شعبے پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ دی جائے۔ اگر موجودہ کھچڑی حکومت نے عوامی مسائل پر فی الفور توجہ نہ دی تو جب بھی الیکشن ہوئے ان کا عوامی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار میں آنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔