مسلم لیگ نون ٹوٹ چکی ہے، ابھی مزید ٹوٹے گی، اور اسٹبلشمنٹ ذمہ دار نہیں

مسلم لیگ نون ٹوٹ چکی ہے، ابھی مزید ٹوٹے گی، اور اسٹبلشمنٹ ذمہ دار نہیں
جمعرات کو ہونے والے الیکشن میں چودھری پرویز الٰہی، جن کی جماعت مسلم لیگ (ق) کے پاس محض 10 نشستیں تھیں، پنجاب اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو گئے اور نہ صرف منتخب ہوئے بلکہ اپنے متوقع ووٹوں سے 12 ووٹ زائد لینے میں بھی کامیاب ہوئے۔ لیکن یہ کوئی معجزہ نہیں تھا۔ ان کو ملنے والے ووٹ در اصل مسلم لیگ نواز کے تھے جو کہ اس کے اپنے امیدوار کو نہ ملنے کی وجہ سے مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف کے متفقہ امیدوار کو مل گئے۔ لیکن یاد رہے کہ تحریک انصاف کے ڈپٹی سپیکر کے امیدوار کو یہ 12 ووٹ نہ مل سکے۔ اس پر آخر میں آتے ہیں۔

لیکن ایسا کیوں ہوا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ نواز کے خلاف اس وقت کچھ قوتیں کارفرما ہیں۔ الیکشن سے قبل اچانک اس کے امیدواروں کا راتوں رات پارٹی چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں شامل ہونا، کئی امیدواروں کے خلاف نیب کی 'بروقت' کارروائی، اور اس کے نتیجے میں کچھ کا پارٹی چھوڑ دینا اور کچھ کا جیل جانا، اور ساتھ الیکشن سے صرف تین روز پہلے حنیف عباسی کے خلاف 6 سال پرانے مقدمے میں فیصلہ آنا، محض حسن اتفاق نہیں تھا۔ آج کل جس تیز رفتاری سے نیب کے وکلا کو نئی تاریخیں دی جا رہی ہیں، اب سے صرف ڈیڑھ ماہ قبل اسی رفتار سے نواز شریف کی مقدمے کی کارروائی میں التوا کی درخواستیں مسترد کی جاتی تھیں۔



لیکن یہ سب صرف اس وجہ سے نہیں ہو رہا کہ کچھ قوتیں مسلم لیگ نواز کے خلاف ہیں۔ نواز لیگ کے اندر بیٹھے کچھ عاقبت نااندیش رہنماؤں کی کوتاہ نظری بھی اس ساری صورتحال کی پوری طرح ذمہ دار ہے۔ اس کلیے کو سمجھنے کے لئے ہمیں تھوڑا پیچھے جانا ہوگا۔

مریم نواز کے ساتھ اوپننگ سٹینڈ

28 جولائی 2017 کو نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کا فیصلہ آتا ہے اور فوری طور پر وہ اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس فیصلے سے ان کو ہٹانے والے ہل کر رہ جاتے ہیں۔ جہلم، گجرات، گوجرانوالہ اور پھر لاہور میں ایک فقید المثال استقبال یہ ثابت کر دیتا ہے کہ نواز شریف نہ صرف مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ یہ بھی کہ ان کے حامیوں نے ان کے اوپر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کو تسلیم نہیں کیا۔ لیکن یہ فیصلہ صرف ان چار روز کے لئے نہیں تھا جن میں وہ اسلام آباد سے واپس لاہور آئے۔ یہ فیصلہ دراصل لاہور سے جدہ یا لندن جانے کی بجائے واپس اسلام آباد جانے والے رستے کی شروعات تھا اور اس سفر نے کم از کم اگلے پورے ایک سال جاری رہنا تھا۔



میاں صاحب نے اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ اوپننگ سٹینڈ میں خوب رنز سمیٹے اور کوٹ مومن میں ایک شاندار جلسے کے بعد جو ٹون سیٹ ہوئی، وہ اگلے چند ماہ نہ صرف برقرار رہی بلکہ ایاز امیر جیسے سینیئر تجزیہ نگار سے بھی یہ اعتراف کروانے میں کامیاب ہوئی کہ 'مجھے کیوں نکالا' کا مذاق اڑانے کے باوجود اب نظر آ رہا تھا کہ نواز شریف کا فیصلہ بالکل درست تھا۔

مگر یہ ہو نہ سکا

نومبر 2017 میں گیلپ اور پلس کے سروے آئے تو مسلم لیگ ن اپنی تمام حریف جماعتوں پر واضح برتری برقرار رکھے ہوئے تھی۔ ان سرویز کی تصدیق رواں سال فروری میں ہونے والے لودھراں کے ضمنی انتخاب میں بھی ہو گئی جب قدرے غیر معروف امیدوار اقبال شاہ نے تحریک انصاف کے چوٹی کے رہنما جہانگیر ترین کے بیٹے کو تقریباً ستائیس ہزار ووٹوں سے شکست دے دی۔

نواز شریف کھیل کا پہلا راؤنڈ جیت چکا تھا۔ لیکن اگلے راؤنڈز میں اس کی باقی ٹیم کو بھی ٹک کر بیٹنگ کرنے کی ضرورت تھی۔

مگر یہ ہو نہ سکا
اور اب یہ عالم ہے کہ تو نہیں، تیرا غم تیری جستجو تک بھی نہیں

اچانک ایسا کیا ہوا کہ لودھراں اور نومبر 2017 کے سرویز کی فاتح مسلم لیگ نواز آج اس حالت کو پہنچ چکی ہے کہ آزاد امیدواروں کا ملنا تو درکنار اس کے اپنے ٹکٹ پر جیتے ہوئے ایم پی اے بھی اس کے سپیکر کو ووٹ دینے پر آمادہ نہیں؟ یہ تو جان چھڑانے والی بات ہے کہ ساری ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دی جائے۔ معاملہ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے اور اسٹیبلشمنٹ پر الزام دھر کر بری الذمہ ہو جانے سے حل نہیں ہو سکتا۔

لہر کی سواری

بات واپس جولائی 2017 کی طرف جاتی ہے۔ نواز شریف نے ایک لہر اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھی۔ ان کو صاف نظر آ گیا کہ انہیں ڈوبنے سے بچنا ہے تو انگریزی محاورے کے مطابق لہر کی سواری کرنا ہوگی۔ ورنہ یہ سب کچھ اپنے ساتھ ہی بہا کر لے جائے گی۔ انہوں نے اس لہر پر خود کو سوار کیا اور اگلے چند ماہ کے اندر اندر اپنی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدل لیا۔ 'مجھے کیوں نکالا' ہو، 'روک سکو تو روک لو' یا 'ووٹ کو عزت دو'، ان کے ہر نعرے نے عوام میں مقبولیت حاصل کی۔ ان کے مخالفین کو یقین ہو گیا کہ جیل میں ڈالے بغیر کوئی چارہ نہیں تو نواز شریف نے بھی اپنی گیم مزید اٹھاتے ہوئے دہشتگردی پر چند ایسے بیانات دیے جو غیر ملکی میڈیا میں پذیرائی حاصل کر سکیں۔ ان کا یہ نشانہ بھی بالکل ٹھیک بیٹھا۔



دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف۔۔۔

لیکن اسی وقت پارٹی کے چند رہنماؤں کی ہمت جواب دے گئی۔ شہباز شریف خود نواز شریف کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات نہیں کر سکتے تھے لہٰذا اس گروہ کی قیادت ایک ایسے رہنما نے کی جو اداروں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ بڑھکیں بھی مارتے ہیں اور پاؤں پکڑنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر جب ایک ادارے نے ان کو ایک کرپشن کیس میں بلایا تو ایک اور ادارے سے سفارش کروا کے شاباش لینے پہنچے، مگر وہی رسوائی اٹھائی جو ایسے کاموں کے بعد عموماً مقدر ہوا کرتی ہے۔ الیکشن میں ان کے ساتھ سب سے بری ہوئی، آپ چاہے سمجھتے رہیں کہ ہاتھ صرف چودھری نثار کے ساتھ ہوا ہے۔ بہر حال، پارٹی کے اندر یہ مخالفت دیکھنے کے بعد نواز شریف سمجھ گئے کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔ انہوں نے شروع میں لندن جا کر گوشہ نشینی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا لیکن پھر واپس اچانک لاہور آ گئے اور جیل کے حقدار ٹھہرے۔

اس موقعے پر شہباز شریف نے جو شرمناک کردار ادا کیا، آج مسلم لیگ ن پنجاب اسمبلی میں اسی کا خمیازہ بھگت کر آئی ہے۔

الیکشن ہی ہار جائیں گے تو کاہے کے 'الیکٹ ایبل'؟

دیکھیں بات یہ ہے کہ کسی کو مسلم لیگ ن میں رہنے کا شوق تھوڑی ہے۔ مسئلہ تو یہ تھا کہ پارٹی کی عوام میں مقبولیت برقرار تھی اور نواز شریف کے جلسے جلوس جس طرح پنجاب میں ان کی مقبولیت دکھا رہے تھے، امیدواروں کو ڈر تھا کہ اگر انہوں نے نواز لیگ چھوڑی تو الیکشن میں نقصان ہوگا اور جب الیکشن ہی ہار جائیں گے تو کاہے کے 'الیکٹ ایبل'؟ لیکن جب وہ لہر جس پر نواز شریف سوار تھے، وہی برقرار نہ رہی تو ان لوٹوں نے بھی اپنی اپنی راہ لی۔ نتیجہ یہ کہ الیکشن میں جنوبی پنجاب سے تقریباً صفایا ہو گیا جبکہ شمالی پنجاب کے متعلق یہ کہتے ہوئے تقریباً لگانے کا تکلف کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔

وہ قافلہ جو سارا دن شہر میں گھومتا رہا مگر اپنی منزل تک نہ پہنچ سکا


اب تو لڑنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں

کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے، حقیقت یہی ہے کہ مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنماؤں نے سیاسی بساط کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ یہ معرکہ صرف لڑ کر جیتا جا سکتا تھا، اور انہوں نے مفاہمت کی کوشش کر کے مخالف کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ اب مخالف کو دوش دینے سے کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ اب تو لڑنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ مسلم لیگ نواز اب کم از کم مریم نواز کے انتخابی معرکے میں واپسی تک بھول جائے کہ یہ لوٹے واپس اس کی طرف رخ کریں گے۔

ڈوبنے سے ڈرنے والے سمندر میں نہ اتریں

کچھ رپورٹوں کے مطابق چھوٹے میاں صاحب کو بتایا گیا تھا کہ اگر وہ نواز شریف کو لینے ائرپورٹ نہ پہنچے تو انہیں پنجاب دے دیا جائے گا۔ یہ افواہ درست ہے تو شہباز شریف سے زیادہ بھولا بادشاہ کوئی نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پارٹی کی تمام صف اول کی قیادت، بشمول نواز شریف کے لڑکپن کے دوستوں کے، اس بات پر متفق تھی کہ انہیں الیکشن سے صرف 10 دن قبل انتظامیہ سے اس قسم کا تصادم لے ڈوبے گا۔ اب تو جیسے تر ہی گئے ہیں۔



اب سوال یہ ہے کہ مستقبل کا منظرنامہ کیا ہوگا؟ جہاں تک مجھے نظر آتا ہے، مسلم لیگ نواز کی حالت فی الحال تو مزید خراب ہی ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ جو تعداد 16 تک پہنچی ہے، وزیر اعلیٰ کے انتخاب والے دن 25 تک جا پہنچے۔ یہاں تک کہ اگر 130 میں سے 66 بھی دوسری طرف ہو جائیں تو کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہوگی۔ کم از کم یہ اسمبلی مسلم لیگ ن کی نہیں۔

تحریک انصاف بھی تیار رہے، دودھ کی رکھوالی پر بلی بٹھا دی ہے

یہ تو ہو گئی مسلم لیگ ن کی بات۔ تحریک انصاف کا کیا ہوگا؟ ہمارے ایک محترم دوست بہادر علی خان نے ایک دن فیسبک پر لکھا تھا کہ پاکستان میں جس سیاسی جماعت کی مقبولیت بڑھتی ہے، وہ سازشوں کا بھی اتنا ہی زیادہ شکار ہوتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ انتخابی فتح تحریک انصاف کا مینڈیٹ ہے۔ الیکشن والے دن کی دھاندلی کو نظر انداز بھی کر دیا جائے (اول تو کیوں کریں؟) تو بھی جو کچھ انتخابات سے پہلے ہوا، یہ مینڈیٹ چوری شدہ ہی کہلا سکتا ہے۔ یہ لوگ جو الیکشن سے چند روز قبل اچانک تحریک انصاف میں شامل ہوئے، یہ تحریک انصاف کے لوگ نہیں ہیں۔ یہ ایک اشارہ ابرو کی مار ہیں، کسی اور جماعت میں چلے جائیں گے۔ لہٰذا اگر تحریک انصاف کو خدا نخواستہ کل کلاں یہ محسوس ہو کہ کوئی اس کے پنچھیوں پر گھات لگائے بیٹھا ہے، تو عمران خان بھی لہر کی سواری کرنے کے لئے تیار رہیں۔ اور ان کی جماعت میں بھی کسی کو گمان ہو کہ وہ عمران خان کے جانے کے بعد خود وزیر اعظم بنے گا، تو وہ شہباز شریف کا حشر دیکھ لے۔ جو مسلم لیگ ن میں نقب لگا سکتے ہیں، وہ تحریک انصاف میں بھی لگا سکتے ہیں۔ اور گھات تو تیار ہے۔ گھات لگانے والوں کو آپ نے خود ہی تو ووٹ دے کر منتخب کیا ہے۔ آخر وہ 12 ووٹ تحریک انصاف کے ڈپٹی سپیکر کے امیدوار کو کیوں نہیں ملے؟ چودھری پرویز الٰہی کے بارے میں عمران خان کی پچھلی رائے یاد ہے نا؟

جاتے جاتے ذرا فواد چودھری کا یہ جملہ بھی بلکہ سنتے جائیں جو وہ حامد میر کے کان میں کہہ رہے ہیں۔ یہ والے چودھری صاحب بھی کوئی چھوٹے کاریگر نہیں۔ ہوا کا رخ بہت تیزی سے پہچانتے ہیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.