سینیئر کرکٹ رپورٹر اور تجزیہ کار عالیہ رشید گذشتہ روز سے ٹوئٹر پر اپنے شعبے میں کئی سال کا تجربہ رکھنے کے ثبوت پیش کر رہی ہیں۔ وہ نوے کی دہائی کی اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہی ہیں اور یہ ثابت کر رہی ہیں کہ وہ اپنے شعبے کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کے لئے پہلے اس معاملے کا بیک گراؤنڈ جان لیجئے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے حالیہ دورہ انگلینڈ پر پہلے ٹیسٹ کے دوران ایک موقع آیا کہ جب پاکستان ٹیسٹ کے تیسرے روز کے اختتام پر جیتنے کی پوزیشن میں تھا اور 2000 کے بعد سے کبھی 220 سے زیادہ رنز کا ٹارگٹ دے کر شکست نہ کھانے والی ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف دوسری اننگز میں کوئی بہت اچھی کارکردگی نہ دکھانے کے باوجود ایک اچھی لیڈ لے رکھی تھی۔ تاہم، جیو سوپر پر اس وقت بھی سابق کپتان سرفراز احمد کے بارے میں بات چیت جاری تھی جو کہ نہ تو ٹیم کا حصہ تھے اور نہ ہی وکٹ کیپر رضوان کی وکٹوں کے عقب میں کارکردگی پر کسی بھی قسم کا سوالیہ نشان تھا۔ جب سینیئر صحافی عالیہ رشید نے اس طرف اشارہ کیا تو پروگرام کے مستقل مہمان سکندر بخت بھڑک اٹھے تھے اور عالیہ رشید کے ساتھ بدتہذیبی سے پیش آئے تھے۔
اس پر نیا دور نے بھی ویڈیو کی جس پر عوام کی جانب سے ملا جلا رد عمل دیکھنے میں آیا۔ کچھ کا کہنا تھا کہ یہ پنجاب کی ٹیم ہے جب کہ ٹیم میں موجود تمام کھلاڑیوں کا بیک گراؤنڈ چیک کیا جائے تو یہ دعویٰ اس حد تک تو درست ہے کہ اس میں بلوچستان سے ایک بھی کھلاڑی نہیں لیکن باقی تینوں صوبوں سے ہی کھلاڑی اس سکواڈ کا حصہ ہیں۔ لیکن دوسری طرف وہ افراد بھی تھے جنہوں نے سکندر بخت کی بطور تجزیہ کار اہلیت پر سوال اٹھایا اور رضوان کی حمایت کی۔
دوسرے ٹیسٹ میں لیکن رضوان نے ایک انتہائی مشکل صورتحال میں ٹیم کو اپنی بیٹنگ کے ذریعے سے بھی سنبھالا دیا۔ پہلی اننگز میں رضوان بیٹنگ کرنے آئے تو پاکستان 120 پر 5 وکٹیں کھو چکا تھا۔ انہوں نے نچلے نمبروں کے بیٹسمین کے ساتھ کھیلتے ہوئے 139 گیندوں پر 7 چوکوں کی مدد سے 72 رنز کر کے پاکستان کے ٹوٹل کو 236 تک پہنچایا اور بارش کی وجہ سے پورا میچ ضائع نہ ہوا ہوتا تو ان overcast حالات میں ممکن تھا کہ پاکستان کی باؤلنگ قومی ٹیم کو ایک بڑی لیڈ فراہم کر کے جیت کی راہ ہموار کر دیتی جو کہ پہلی اننگز میں رضوان کی شاندار کارکردگی کی بدولت ہی ممکن ہو پاتا۔
شام کو اسی حوالے سے جیو سوپر پر ایک مرتبہ پھر بات ہو رہی تھی تو اس پروگرام میں بھی عالیہ رشید اور سکندر بخت دونوں موجود تھے اور پروگرام میزبان کی جانب سے رضوان کی بیٹنگ پر بات کرتے ہوئے پہلے ہی سوال پر سکندر بخت کے جواب نے ثابت کر دیا کہ وہ عالیہ رشید کے ساتھ اپنی پچھلی مڈبھیڑ کو بھولے نہیں تھے۔ سکندر بخت نے نہ صرف رضوان کی بیٹنگ کی تعریف بددلی سے کی بلکہ الٹا عالیہ رشید پر ذاتی حملے شروع کر دیے کہ میں نے 26 ٹیسٹ کھیلے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھے کرکٹ کے بارے میں وہ لوگ بتائیں جنہوں نے کبھی کوئی کرکٹ کھیلی ہی نہیں، کبھی ٹیسٹ کرکٹ کے میدان میں اترے ہی نہیں؟
یاد رہے کہ عالیہ رشید نے سکندر بخت کی اہلیت پر کوئی بات نہیں کی تھی نہ ہی انہوں نے سکندر بخت کے کم ٹیسٹ کھیلنے سے متعلق کوئی بات کی تھی بلکہ وہ محض ان کے سرفراز پر ایسے وقت میں پروگرام کرنے پر تنقید کر رہی تھیں جب کہ موصوف ٹیم میں موجود ہی نہیں تھے اور ان کی جگہ ٹیم میں کیپنگ کرنے والے رضوان بہت اچھی کارکردگی دکھا رہے تھے۔ سکندر بخت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ذاتی حملے پر عالیہ رشید برہم ہوئیں لیکن انہوں نے پھر بھی سکندر بخت کی سطح پر آنے کی بجائے کہا کہ اگر میرا کام اتنا اچھا نہیں ہے، میں اپنے شعبے کی ماہر نہیں ہوں تو پھر مجھے جیو کی انتظامیہ بلاتی کیوں ہے؟ مجھے اگر کام نہیں آتا تو سوال جیو انتظامیہ سے اٹھایا جانا چاہیے کہ آخر میں کیوں اس پوزیشن پر ہوں جو مجھے ادارے نے دے رکھی ہے۔
عالیہ رشید نے اس موقع پر سکندر بخت کو یاد دلایا کہ صحافت کے شعبے میں سکندر بخت نے ایک بھی دن کام نہیں کیا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جیو سوپر پر بیٹھ کر بات نہیں کر سکتے؟ انہوں نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ پروگرام میں ان کے ساتھ یحییٰ حسینی اور عبدالماجد بھٹی بھی موجود ہیں اور ان دونوں نے بھی کبھی ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلی لیکن ان کی اہلیت پر تو سوالات نہیں اٹھائے جاتے، تو پھر عالیہ رشید کی اہلیت پر کیوں؟
اس کا جواب سکندر بخت تو خیر کیا دیتے؟ یوں بھی پروگرام کی میزبان نے حالات میں مزید بگاڑ سے بچنے کی خاطر وقفہ لے لیا تھا۔ لیکن عالیہ رشید کے سوالات کا جواب محض ایک ہی ہے۔ اور وہ یہ کہ ان کے ساتھ یہ رویہ روا رکھنے کی وجہ ان کا خاتون ہونا ہے۔ ایسا نہیں کہ سکندر بخت محض ان کے خاتون ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف ہیں۔ لیکن اختلاف کی صورت میں عالیہ رشید کا خاتون ہونا ان کے خلاف استعمال کرنا انتہائی آسان ہے کیونکہ معاشرے میں مروجہ نظریات کے مطابق عورتوں کو کرکٹ پر بات کرنے کا ملکہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ چاہے پورے ملک میں گراؤنڈز کی خاک چھانتی پھریں، تندہی سے اپنا کام انجام دیں، دہائیوں تک کھیل اور کھلاڑیوں سے متعلق رپورٹنگ کرتی رہیں، جس دن وہ ایک سابق کرکٹر کی غلط بات پر سوال اٹھائیں، ان کی تنقید کے جواب کی بجائے، ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر سوال اٹھا کر ان کے کام اور نام کو discredit کرنا ہی ان کے نزدیک آسان ترین حربہ ہے۔
سکندر بخت اور ان جیسے افراد کو اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ دو معاملات میں۔ نمبر ایک، وہ کسی PR agency میں نہیں، خبروں کے چینل پر کام کرتے ہیں اور ان کے پروگرام کے ایجنڈے میں خبر اور اس پر تجزیہ غالب ہونا چاہیے، نہ کہ کسی مخصوص کھلاڑی کے لئے لابنگ۔
دوسری چیز یہ کہ جب انہیں PR agency کی طرح کام کرنے پر کوئی تنقید کا نشانہ بنائے تو جواباً اپنا مؤقف رکھنا چاہیے، بجائے تنقید کرنے والے پر ذاتی حملے کیے جائیں۔ خاص طور پر جب سامنے کوئی خاتون ہو تو انہیں اپنی تمام تر جبلی خواہشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پوری شعوری کوشش کے ساتھ اپنی دلیل کو محض موضوع تک محدود رکھنا چاہیے۔ پاکستان میں پہلے ہی خواتین کے لئے مواقع کم ہیں، سکندر بخت نے جس سوچ کا مظاہرہ کیا وہ خواتین کے لئے معاملات کو مزید پیچیدہ بنائے گی۔ مزید برآں جیو سوپر کو بھی اپنے ملازمین کے لئے ایک ٹریننگ کا اہتمام کرنا چاہیے جس میں انہیں کم از کم مباحثے کے آداب پر تعلیم دی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔