کامیاب جوان کے لئے اسٹارٹ اپ پاکستان کا گورکھ دھندہ، طاہر عبید نامی شخص اپنا ذاتی کاروبار چلا رہا ہے

پاکستان میں حکمران عوامی مفاد کے منصوبے شروع کرنے کی بجائے اپنے رفقا کو نوازنے کے منصوبے زیادہ شروع کرتے ہیں۔ سابقہ حکومتوں میں کبھی سستی روٹی کے نام پر اربوں روپے تندوروں کی نذر کر دیے اور کبھی لیپ ٹاپ اور پیلی ٹیکسی کی بندربانٹ کی گئی۔

تبدیلی سرکار نے بھی کچھ مختلف نہیں کیا ہے۔ منصوبے سابقہ حکومتوں والے ہی ہیں، بس نام تبدیل کیے ہیں۔ کامیاب جوان پروگرام ماسوائے لالی پاپ کے کیا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ فلاپ پروگرام کو چلانے کے لئے اسٹارٹ اپ پاکستان پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ جس کے لئے بھاری تنخواہوں پر نالائق اور چاپلوس لوگ بھرتی کر کے اقربا پروری کی جا رہی ہے۔

اسی طرح دیگر کئی پروگرام ہیں جن کا عام عوام کو اب تک رتی بھر فائدہ نہیں ہوا، مگر پروگرام پر بیٹھائے گئے یار دوستوں کے دن ضرور پھر گئے ہیں۔ ان کے ذاتی کاروبار بھی دن بدن وسعت اختیار کر رہے ہیں۔

کامیاب جوان پروگرام کی ویب سائٹس پر تفصیلات موجود ہیں۔ کوئی باشعور نوجوان شہری یہ نہیں بتا سکتا کہ ویب سائٹ پر دی جانیوالی تفصیلات میں نوجوانوں کے لئے کیا ثمرات ہیں۔ نوجوانوں کے ساتھ عجیب مذاق کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے نوکریوں کا جھانسہ دے کر نوجوانوں کے جذبات خریدے اور اب ان کے خواب بھی چرائے جا رہے ہیں۔

یہ این جی اوز کی طرز پر صرف لالی پاپ دینے کے لئے قوم کے اربوں روپے خرد برد کر رہے ہیں اور وہ بھی وزیراعظم کی ناک کے نیچے، وزیر اعظم آفس میں بیٹھ کر ہی یہ گورکھ دھندہ کیا جا رہا ہے۔

تحریک انصاف نے اقربا پروری اور کرپشن کے خلاف اپنی انتخابی مہم چلائی اور سابقہ حکمرانوں کو چور اور ڈاکو قرار دیا اور دیتے آ رہے ہیں مگر خود حکومت کے قیام کے دن سے آج تک کوئی ایسا منصوبہ سامنے نہیں آیا جس میں تجربہ کار، اہل اور شفاف ماضی کے حامل لوگ رکھے گئے ہوں۔ سب سفارشی اور تعلق دار ہی بھرتی کئے گئے ہیں۔

شہزاد گل جو پہلے وزیراعلی پنجاب کے اوپر لگائے گئے تھے۔ کرتوت سامنے آئے تو ہٹا کر وزیراعظم آفس میں بیٹھا دیا گیا ہے۔ طاہر عبید چودھری نامی شخص کو کس قابلیت اور مہارت کی بنا پر ڈائریکٹر تعلقات عامہ تعینات کیا گیا ہے۔ جو اسٹارٹ اپ پاکستان کی آڑ میں اپنا ذاتی کاروبار چلا رہا ہے۔ طاہر عبید چودھری سے کوئی رابطہ کرتا ہے تو وہ اپنی کمپنی کی سروس کی آفر کرتا ہے۔ اسٹارٹ اپ پاکستان کے ساتھ اپنی کمپنی کی تشہیر بھی کر رہا ہے۔

یہ حال صرف کامیاب جوان پروگرام کے لئے اسٹارٹ اپ پاکستان کا نہیں ہے بلکہ حکومت کی جانب سے شروع کردہ ہر پروگرام میں ذاتی مفادات کو مقدم رکھا جا رہا ہے۔

انیل مسرت سے طاہر عبید چودھری تک سب قومی دولت سے اپنے اپنے ذاتی کاروبار چلانے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں صرف نام کا فرق ہے۔ کام ایک جیسے ہی ہیں۔ پی ٹی آئی بھی موقع پرستوں اور پراپرٹی ڈیلروں سے بھری پڑی ہے۔ سیاسی شعور رکھنے والے خال خال ہی ہیں اور جو ہیں انہیں چاپلوس پیچھے دھکیل کر رکھتے ہیں۔ اب یہ پارٹی چیف کی حکمت ہے کہ وہ ملکی مفاد کے لئے میرٹ کو ترجیح دیتا ہے کہ سابقہ روایات کو ہی آگے بڑھاتا ہے۔ تاحال تو کھچڑی پکی ہے اور کوے کھا رہے ہیں۔

پچاس ہزار گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے نعرے اور وعدے کامیاب جوان پروگرام کے اسٹارٹ اپ پروگرام کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ اسٹارٹ اپ پاکستان کے گورکھ دھندے سے کس زمانے کے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو لالی پاپ دینے والے تو مستفید ہو رہے ہیں۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔