محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کا چھاپہ غیر قانونی قرار دینے والے جج کیخلاف ریفرنس لانے کا فیصلہ

محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کا چھاپہ غیر قانونی قرار دینے والے جج کیخلاف ریفرنس لانے کا فیصلہ
حکومت نے محسن بیگ کے گھر پر ایف آئی اے کے چھاپے کو غیر قانونی قرار دینے والے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جیو نیوز سے گفتگو میں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے بتایا کہ ان کی اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ محسن بیگ نے ادارے کے اہلکاروں پر فائرنگ کی۔ جج نے فیصلہ لکھ کر اپنے فیصلے سے تجاوز کیا۔ جب بندہ آپ کے سامنے آگیا تو آپ کا مینڈیٹ ختم ہوگیا۔ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
نیاز اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دی جائے گی۔ ہم چیف جسٹس اطہر من اللہ سے درخواست کریں گے کہ وہ مذکورہ جج کیخلاف کارروائی کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ جج کا فیصلہ متعصبانہ ہیں، یہ ان کا مینڈیٹ ہی نہیں تھا۔ چیف جسٹس کو بھیجی جانے والی شکایات جج کیخلاف ریفرنس ہوگی۔
خیال رہے کہ ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے پانچ صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا تھا کہ ایف آئی اے کی ایف آئی آر صبح 9 بجے درج ہوئی۔ اس سے واضح ہے کہ محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ غیر قانونی تھا۔ ان لوگوں نے محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارا جن کے پاس چھاپے کا اختیار ہی نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ایف آئی اے نے ساڑھے نو بجے بغیر کسی ثبوت کے چھاپہ مارا۔ پولیس محسن بیگ کا بیان ریکارڈ کرے اور قانون کے مطابق کارروائی کرے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ بغیر کسی سرچ وارنٹ کے چھاپہ مارا گیا۔ ایف آئی اے اور ایس ایچ او کی ایف آئی آر سے ثابت ہوتا ہے چھاپہ غیر قانونی تھا۔ تھانہ مارگلہ ایس ایچ او نے ان افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بجائے الگ کیس بنایا۔
عدالت نے ایس ایچ او کو واقعے سے متعلق مبینہ زیر حراست شخص کی درخواست پرکارروائی کی ہدایت کی اور کہا کہ اگر درخواست دی جائے تو اس حکم نامے کے ساتھ آئی جی پولیس اسلام آباد کو بھیجی جائے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئی جی اسلام آباد کو دی گئی درخواست ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کیلئے بھجوائی جائے۔

عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے مبینہ زیرحراست شخص کوانسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کیاگیا، اور عدالت کی جانب سے تین دن کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا ہے، مبینہ زیر حراست شخص اے ٹی سی کی جوڈیشل تحویل میں ہے لہٰذا اے ٹی سی مبینہ حراست کی قانونی حیثیت کا تعین کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔