پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے ڈرائیونگ سیٹ پی ڈی ایم نے واپس لے لی ہے۔ پرویز الہیٰ نے اسٹیبلشمنٹ کو پنجاب کے معاملے پر دھوکہ دیا ہے، اسٹیبلشمنٹ کو اس فیصلے سے خفت اٹھانا پڑی ہے۔ پی ڈی ایم نے اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دیا ہے کہ اب ہمیں اپنی مرضی کرنے دیں، 35 استعفوں کا منظور ہونا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگر وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے دوبارہ الیکشن ہوا تو شہباز شریف آسانی سے جیت جائیں گے، تحریک انصاف وفاقی حکومت کو نہیں گرا سکتی۔ یہ کہنا ہے کالم نگار مزمل سہروردی کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے کسی ممکنہ نئے سیاسی اتحاد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی وزیراعظم رہنے کے باوجود اپنے حلقے کو نہیں سنبھال سکے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر بھی دو سال سے پیپلز پارٹی سے نکالے ہوئے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کی بھی کوئی انتخابی پوزیشن نہیں ہے۔ اس لیے نئی سیاسی دھڑے بندیوں کا کوئی سیاسی مسقبل نہیں ہوگا۔ یہ سب کسی نئے غیر آئینی سلسلے کی تیاری تو ہو سکتی ہے مگر اس کا کوئی آئینی مقصد نظر نہیں آتا۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کے لئے پی ٹی آئی کی طرف سے تجویز کردہ ناموں میں سے احمد سکھیرا سرکاری آفیسر ہیں۔ نصیر خان دہری شہریت رکھتے ہیں اور پرویز الہیٰ کے سمدھی بھی ہیں۔ ناصر کھوسہ کی تحریری معذرت (ن) لیگ کے پاس موجود ہے۔ ان افراد پر پارلیمانی کمیٹی میں اعتراضات لگ جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے دیے گئے ناموں میں سے احد چیمہ کے پر شہباز شریف کے قریبی ساتھی ہونے کا اعتراض لگ سکتا ہے۔ ان کی سرکاری ملازمت سے استعفے کو ابھی دو سال پورے نہیں ہوئے۔ محسن نقوی سالک حسین کے ہم زلف ہیں۔ چودھری شجاعت کی بہن کے داماد ہیں، ان کے اوپر بھی چودھریوں کے ساتھ رشتہ داری کا الزام لگ سکتا ہے۔
صحافی عامر غوری کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک سال سے استعفوں کا کارڈ اپنے پاس رکھا ہوا تھا جس کو اب استعمال کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی ساری اعلیٰ قیادت کے استعفے منظور ہو چکے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ پہلے سے ہی کمزور حکومت پہ مزید دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ موجودہ خراب اقتصادی حالات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن کروانے ممکن نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) اس وقت کمزور پوزیشن میں ہے، اس حالت سے نکلنے کے لیے انہیں مضبوط بیانیے کی ضرورت ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ دو نئی ٹیمیں بن رہی ہیں؛ ایک سیاسی لوگوں کی ٹیم ہے جو نیا گٹھ جوڑ بنا رہے ہیں، دوسری ٹیم آرمی چیف نے ستمبر اکتوبر میں اپنے افسروں کی بنانی ہے۔ اس کے بعد قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بھی بننا ہے جس سے عدلیہ میں بھی ایک نئی ٹیم بننے کا امکان ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو سیاسی استحکام کا پیغام دینا چاہئیے، سیاسی استحکام ملکی مسائل حل کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ کے لئے نام عجلت میں دیے گئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے اندر بعض حلقوں میں اب بھی عمران خان کے لئے ہمدردی موجود ہے۔
پروگرام کے میزبان مرتضی سولنگی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔