نواز شریف کی الجھن اور مسلم لیگ ن کا مستقبل

نواز شریف کی الجھن اور مسلم لیگ ن کا مستقبل
پاکستان کے تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیرِاعظم نواز شریف اپنے سیاسی کریئرکے فیصلہ کن اور کسی حد تک غیر متوقع مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ پاکستانی ریاست، خاص طور پر اس کی طاقتور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھی نوازشریف کوعشروں تک وہ سرپرستی اور حمایت حاصل رہی جس نے اُنہیں ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیرِاعلیٰ، اور پھر وزیرِاعظم بننے میں مدد دی۔

فیصلہ غیر متوقع نہیں

پانچ جولائی کو نواز شریف کو دس سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔ اُنہیں اَٹھ ملین پاؤنڈ جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی۔ یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔ عمومی تاثر یہی تھا کہ اُنہیں بدعنوانی کی پاداش میں سزا ہو جائے گی۔ نواز شریف کی بیٹٰی، اور ممکنہ جانشین مریم، اور اُن کے شوہر محمد صفدر بھی قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ احتساب عدالت نے شریف فیملی کے ایون فیلڈ ہاؤس، لندن کے چار اپارٹمنٹس ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔

فیصلہ مریم کے لئے کاری ضرب

مریم کے لئے یہ فیصلہ ایک کاری ضرب ہے، اور اس نے اُن کے فوری طور پر وزیرِاعظم بننے کے امکان کو ختم کر دیا ہے۔ اُنہیں پنجاب کے دارالحکومت لاہور، جو شریف فیملی کا مضبوط گڑھ ہے، کے ایک محفوظ حلقے سے الیکشن لڑایا جانا تھا۔ گذشتہ ایک برس سےمریم نواز اپنے والد کے سولین بالا دستی کے بیانیے کا دفاع کرنے والی شعلہ بیان لیڈر کے طور پر ابھری تھیں۔

وقت کا تعین فیصلہ سیاسی قرار دیے جانے کی وجہ

احتساب عدالت کا فیصلہ پاکستان میں عام انتخابات سے بیس دن پہلے آیا۔ چنانچہ اسے ایک سیاسی فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے جس کا مقصد نواز شریف اور اُن کی جماعت، پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو اقتدار سے الگ رکھنا ہے۔ پی ایم ایل (ن) حالیہ دنوں ہونے والے پولز میں سبقت لے رہی تھی۔ لیکن جب اس کی مرکزی قیادت انتخابی سیاست کے لئے نااہل قرار پا کر جیل میں ہے تو عین ممکن ہے کہ ووٹر بھی اس سے منہ موڑ لیں۔

نواز شریف کے ذہن میں ایک مختلف پاکستان کا تصور بہرکیف موجود تھا

تاریخ  انجانے حوادث سے عبارت ہوتی ہے۔ جب نواز شریف کو احساس ہوا کہ وہ بطور سولین ایگزیکٹو اپنے اختیارات استعمال کرنے سے قاصر ہیں، تواُن کا اپنے سابق ماسٹرز سے ٹکراؤ ہونے لگا۔ ایسا نہیں کہ وہ ایک مثالی وزیرِاعظم تھے، لیکن اُن کے ذہن میں اُس پاکستان کا تصور بہرکیف موجود تھا جسے معاشی ترقی، تجارت، عالمی روابط اور اپنے روایتی حریف بھارت کے ساتھ امن کی فضا قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پالیسی کا یہ آخری حصہ تھا جس کی وجہ سے اُن کا ملٹری اسٹبلشمنٹ سے ٹکراؤ ہونا ناگزیر تھا۔ باقی تاریخ ہے۔

نواز شریف کا سیاسی سفر تغیر سے عبارت ہے

1999 میں نواز شریف کو فوجی شب خون کے ذریعے اقتدار سے ہٹا کر اَٹھ سال کے لئے جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ وہ 2007 میں اُس وقت واپس آئے جب فوجی آمر، جنرل مشرف عوامی احتجاج  کا سامنا کر رہا تھا۔

بےنظیر بھٹو کے قتل کے بعد نواز شریف ایک قومی رہنما کے طور پر ابھرے۔ اُنہوں نے 2013 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی اور اقتدار میں واپس آ گئے۔ اُنہوں نے انتخابات سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ وہ جنرل مشرف کوآئین شکنی کی پاداش میں قانون کے کٹہرے میں ضرور کھڑا کریں گے۔ اُن کی حکومت نے مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی شروعات کی۔ اس فیصلے سے واقعات کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو آخرکار 2017 میں اُن کی اقتدار سے رخصتی پر متنج ہوا۔

یہ کیس مقبولیت پسند اور تنک مزاج چیف جسٹس اور شریف فیملی کی ذاتی لڑائی میں تبدیل ہو چکا ہے

بظاہر نواز شریف پر بدعنوانی کے الزام میں مقدمہ چلا۔ پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے سے پتہ چلا کہ اُن کی فیملی سمندر پار جائیدادیں اور اکاؤنٹس رکھتی ہے جن میں بھاری دولت چھپائی گئی ہے۔ اس طرح وہ منی لانڈرنگ کے الزام کی زد میں آ گئے۔ اُن کے مخالفین نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور کیس کو عدالت میں لے گئے۔ آخرکار سپریم کورٹ نے اُنہیں عوامی عہدہ رکھنے کے لئے نااہل قرار دے دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ کیس کو احتساب عدالت میں چلائے جانے کی ضرورت ہے، لیکن چونکہ نواز شریف ایک قابلِ وصول تنخواہ (جو اُنہوں نے وصول نہیں کی) کو اپنے کاغذات میں ظاہر کرنے سے قاصر رہے تھے، اس لئے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ بعد میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پارٹی صدارت سے بھی ہٹا دیا، اور کہا کہ اُن کی نااہلی تاحیات ہے۔  اس کے بعد سے نواز شریف اور اُن کی جماعت عدالتوں پر کھل کر تنقید کر رہی ہے۔ یہ کیس مقبولیت پسند اور تنک مزاج چیف جسٹس اور شریف فیملی کی کوئی ذاتی لڑائی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ کریمنل لا کے مطابق جرم ثابت کرنے کا بار استغاثہ پر ہوتا ہے۔ اگر وہ ایسا کرے تو پھرملزم نے عدالت کو مطمئن کرنا ہوتا کہ اُسے سزا کیوں نہ دی جائے۔ نواز شریف کیس میں استغاثہ نے ثابت کرنا تھا کہ ایون فیلڈ جائیداد، لندن نواز شریف فیملی کی ملکیت ہے، اور اُنہوں نے اسے خریدا ہے۔ ایک مرتبہ جب ایسا ہوجاتا تواستغاثہ نےثابت کرنا تھا کہ جائیداد خریدنے کے لئے آمدنی کے ذرائع اعلانیہ نہں تھے۔

کیس میں طے شدہ قانونی اصولوں سے انحراف کیا گیا

لیکن اس کیس میں طے شدہ قانونی اصولوں سے انحراف کیا گیا۔ فیصلہ سنانے والے جج صاحب نےتسلیم کیا کہ ملکیت ثابت کرنا بہت مشکل ہے، خاص طور پر جب ان میں سمندر پار کمپنیاں بھی ملوث ہوں۔ لیکن اُنہوں نے لکھا کہ یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

جج صاحب نے ایون فیلڈ جائیداد اور نواز شریف کے بچوں کے درمیان تعلق پر روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ فلیٹس کم از کم ایک بچے کی ملکیت میں ضرور رہے تھے۔ جج صاحب نے تین نکات کو سامنے رکھتے ہوئے نتیجہ نکالا کہ یہ فلیٹس شریف فیملی کی ملکیت ثابت ہوتے ہیں۔ تھرڈ پارٹی، موزیک فونسیکا سے حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق مریم نواز ایک  سمندر پار کمپنی سے فائدہ اُٹھانے والی مالک تھیں، اورایون فیلڈ جائیداد اُسی سمندر پار کمپنی کی ملکیت میں تھی، برطانوی ہائی کورٹ کی ایک کارروائی جس میں اس جائیداد کا ذکر تھا، اور نواز شریف کے بیٹے حسن نواز کا ایک انٹرویو۔

'انصآف ہوتا نہیں، بلکہ جلد بازی میں دفن ہوتا نظر آیا ہے'

یہ مقدمہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق چلا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سپریم کورٹ اس طرح ماتحت عدالت کو براہِ راست حکم نہیں دیتی، لیکن پاناما کے غیر معمولی مقدمے میں ایسا کیا گیا تاکہ تیز رفتاری سے فیصلہ ہو سکے۔

عدالت نے کہا کہ چونکہ مدعا علیہ یہ ثابت کرنے کے لئے دستاویزات نہیں رکھتا کہ وہ اس جائیداد کا مالک نہیں، چنانچہ ثابت ہوتا ہے وہی اس کا مالک ہے۔ پاکستان کے ایک نامور وکیل، باسل نبی ملک نے لکھا، "جس طرح طے شدہ طریقِ کار کو ایک طرف رکھتے ہوئے جلد بازی میں یہ فیصلہ سنایا گیا ہے، اور جو اس کی ٹائمنگ ہے، اور جس طرح اس میں سپریم کورٹ نےمداخلت کی، اس سے مجموعی تاثر یہ ابھرا ہے کہ انصآف ہوتا نہیں، بلکہ جلد بازی میں دفن ہوتا نظر آیا ہے۔"

نواز شریف کم از کم قانونی محاذ پر قدرے پر امید ہیں

پاکستانی قانون کے مطابق ایک سزا یافتہ  مجرم جو "اگر مفرور ہے تو وہ نیب آرڈیننس کی شق 32 کے مطابق اپنی سزا کو چیلنج نہیں کر سکتا۔" یہی وجہ ہےکہ نواز شریف اور مریم نواز نے پاکستان واپس آنے اور اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہت سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیصلہ بہت کمزور ہے، چنانچہ اعلیٰ عدالت اسے معطل کر سکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کم از کم قانونی محاذ پر قدرے پر امید ہیں۔

یہ کوئی آسان سفر نہیں ہے

لیکن چونکہ ہمارے ہاں قانون اور سیاست باہم الجھے ہوئے ہوتے ہیں، اس لئے 25 جولائی سے پہلے نواز شریف کی واپسی اُن کی جماعت کو بھی تاب و تواں دے گی۔ اُن کے ساتھ اُن کی جانشین مریم نواز بھی جیل میں ہیں۔ اس سے ہمدردی اور اشتعال کی لہر ابھر سکتی ہے (جس کا اظہار سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے)۔

لیکن یہ کوئی آسان سفر نہیں ہے۔ نواز شریف کے سب سے بڑے حریف عمران خان انتخابی میدان کے بہت سے مورچے فتح کیے جا رہے ہیں۔ عمران خان کو پاکستان کی طاقتور اسٹبلشمنٹ اور میڈیا کے کچھ دھڑوں کی سرپرستی اور حمایت حاصل ہے۔ شہری علاقوں میں وہ خاطر خواہ حمایت رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے نواز شریف کی پارٹی اورایک اور اہم سیاسی قوت، پاکستان پیپلز پارٹی کی صفوں سے نکل کر آنے والوں کو قبول کیا ہے۔ وفاداری تبدیل کرنے والے  ایسے افراد کو انہوں نے 'الیکٹ ایبلز' کا نام دیا ہے۔

عدالتی فیصلے عمران کے دیرینہ مؤقف کی تائید؟

عمران خان کے حامی نواز شریف کی سزا کواُن کی بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کی راہ میں ملنے والی کامیابی گردانتے ہیں۔ اُن کے نزدیک عدالتی فیصلے نے اُن کے دیرینہ مؤقف کی تائید کر دی ہے۔

نوازشریف کی سیاست ایک پیچدہ مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ایک طرف وہ پاکستانی سیاست کی تمام خرابیوں کی علامت ہیں تو دوسری طرف اسٹبلشمنٹ مخالف لیڈر کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ پاکستانی اشرافیہ، خاص طور پر سیاسی جاعتوں کے قائدین، نے بے پناہ دولت سمیٹی ہے۔ ایسا کرنا ریاستی طاقت اور وسائل کے استعمال کے بغیر ممکن نہ تھا۔

نواز شریف بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے واحد سیاست دان نہیں

نواز شریف اور اُن کی بیٹی کو ملنے والی سخت سزا کو دیکھتے ہوئے فوری ضمانت کا امکان معدوم ہے۔ ان دونوں کو جیل میں ہی رہنا ہوگا تاوقتیکہ اسلام آباد ہائی کورٹ اس کیس کو سماعت کے لئے منظور کر لے۔ اس کا مطلب ہے کہ اُںہوں ںے ایک طویل قانونی جنگ لڑنی ہے۔

نواز شریف واحد سیاست دان نہیں جنہیں بدعنوانی کے الزامات کا سامنا رہا ہے۔ بےنظیر بھٹو مرحومہ (جو دومرتبہ وزیرِاعظم بنیں) اور اُن کے شوہر کو اپنے سیاسی کریئر کے دوران زیادہ تر ایسے ہی الزامات کا سامنا رہا۔ 1990 سے لے کر 2017 تک محترمہ کے شوہر آصف زرداری پر بدعنوانی کے درجنوں مقدمات بنے، اور اُنہوں ںے اپنی زندگی کے گیارہ سال جیل میں گزارے۔ لیکن زیادہ تر الزامات ثابت نہ ہو سکے۔ آصف زرداری 2008 سے لے کر 2013 تک پاکستان کے صدر بھی رہے۔

زرداری اور ان کی پارٹی نے اسٹبلشمنٹ کے قواعد کی پیروی نہ کی تو۔۔۔

گذشتہ ہفتے ایک مرتبہ پھر آصف زرداری کا نام منی لانڈرنگ کے ایک بہت بڑے سکینڈل کی زد میں آیا۔ اس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور سپریم کورٹ نے اُنہیں طلب کیا۔ پیغام واضح تھا کہ اگر وہ اور اُن کی پارٹی نے اسٹبلشمنٹ کے قواعد کی پیروی نہ کی تو اُنہیں بھی احتساب کا مزہ چکھنا ہوگا۔

یہ ہتھیار 1950 سے زیر استعمال ہے

حریفوں کو دبانے کے لئے بدعنوانی کے الزامات کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ 1950 کی دہائی سے اس کا رواج چلا آ رہا ہے جب پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے منتخب ارکان کو 'نااہل' قرار دینے کے لئے قوانین وضع کیے۔ کئی عشروں تک سیاسی صفائی کا عمل جاری رہا یہاں تک کہ یہ یقینی بنا لیا گیا کہ سیاست دان ہمیشہ سول ملٹری بیورو کریسی کے سامنے دب کر رہیں گے۔

نواز شریف نے بھی 1990 کی دہائی میں یہی کچھ کر رکھا ہے

ستم ظریفی یہ ہے کہ نواز شریف نے بھی 1990 کی دہائی میں بےنظیر بھٹو کے خلاف یہی کچھ کیا تھا۔ اُنہوں نے احتساب کمیشن کو اپنے سیاسی مخالفین کا بازو مروڑنے کے لئے استعمال کیا۔ پتہ نہیں کہ اُنہیں اس پر تاسف ہے یا نہیں، لیکن اُنہیں ایک بات کی بخوبی سمجھ آ چکی ہوگی کہ سیاسی اکھاڑے میں بدعنوانی اور احتساب کے نعرے لگا کر کس طرح مخالفین کو راستےسے ہٹایا جاتا ہے۔

تاریخ کا پہیہ

آج کئی عشروں بعد نوازشریف کواسی آزمائش کا سامنا ہے۔ تاریخ کا پہیہ کس طرح چکر پورا کرتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ ایک فرق ہے۔ ایک مقبول سیاست دان، نواز شریف، جن کا تعلق پاکستان کے سب سے بڑے اور طاقتور صوبے پنجاب سے ہے، اسٹبلشمنٹ کی ناراضی کا سامنا کر رہے ہیں۔

نواز شریف کی جماعت کامیاب نہ بھی ہوئی تو ایسی جماعت کے طور پر یاد رکھی جائے گی جس نے سولین بالادستی کے لئے جدوجہد کی

یہ موسمِ گرما بہت ڈرامائی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے لئے بہتری کی کوئی راہ نکل آئے، اسے اپنی منزل کی طرف جانے والا راستہ دکھائی دے جائے۔ اگر نواز شریف کی جماعت کو الیکشنز میں کامیابی نہ ملی تو بھی یہ سیاسی نظام میں ایک تبدیل ہوتے ہوئے پاکستان کی یاد دہانی کراتی رہے گی۔ اسے ایک ایسی جماعت کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے سولین بالادستی کے لئے جدوجہد کی اور ماضی کے آسیب کو بوتل میں بند کرنے کی کوشش کی۔

مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔