فلسطینی حقوق کی غاصب ریاست کس منہ سے انسانی حقوق کی بات کرتی ہے؟

فلسطینی حقوق کی غاصب ریاست کس منہ سے انسانی حقوق کی بات کرتی ہے؟
لو اب کہنا تو یہی پڑے گا نا کہ چھاج تو بولے سو بولے پر بیبا اب تو چھلنی بھی بولنے لگی ہے جس میں ستر سو چھید ہیں۔ اللہ کی شان ہے اسرائیل نے بھی پاکستان پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگا دیا ہے۔ یعنی 9 سو چوہے کھا کر اب بلی خیر سے حج کو چلی ہے۔

یوں تو خیر سے یہ جتنے بھی بڑے بڑے پڑھے لکھے، ترقی یافتہ، مہذب اور کلچرڈ ملک ہیں، جنہیں انسانیت کی بہت فکر رہتی ہے اور جو چھوٹے اور 'غیر مہذب' ملکوں کے چھوٹے موٹے جھگڑوں پر بڑے زعم سے اُن کے نام تنبیہ پر مبنی بیان جاری کرتے رہتے ہیں، ڈوب کر نہیں مرتے کہ انہوں نے غریب لاچار ملکوں اور خود اپنے مقامی لوگوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں ان کا سارا حساب کتاب تاریخ میں درج ہے۔ پر یہ اسرائیل تو اس کام میں سب کا باپ ہے۔ کوئی اسے آئینہ تو دکھائے کہ یہ خود کو اعلیٰ اور برتر سمجھنے والی قوم زمانوں سے کتنا ذلیل ہوتی آ رہی ہے۔

صدیوں پرانی تاریخ گواہ ہے کہ قیصروں، رومیوں اور سپین کے بادشاہوں کے ساتھ لڑائیاں جن میں ہیکل کا جلنا، لاشوں کے ڈھیر جبکہ ڈیڑھ لاکھ افراد کا تہ تیغ کیا جانا ریکارڈ پر ہے۔ تب نعرہ کیا لگتا تھا؛

'بڑا گھمنڈ اور تکبر ہے انہیں اپنی اعلیٰ نسلی کا۔ بڑا گھٹیا سمجھتے ہیں یہ دوسری قوموں کے لوگوں کو۔ ایک بندہ بھی نہ بچنے پائے'۔

حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ کوئی بچا بھی نہ تھا کہ جو یہ بتاتا کہ ہیکل مغربی پہاڑ پر تھا یا مشرقی پر۔ صدیوں کی تاریخ ایسے ہی واقعات کی گواہ ہے۔ یورپ کی حکومتوں نے انہیں ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ ماضی بعید کو چھوڑ کر بس یہی کوئی ڈھائی تین سال پہلے کا جائزہ لے لیں۔

کس کس قوم نے ان کی نسل کشی نہیں کی۔ کہیں فرانسیسیوں نے، کہیں روسیوں نے اور کہیں ان انگریزوں نے جنہوں نے انہیں زمینیں خریدنے اور کاشت کاری سے بھی روک رکھا تھا۔ ہنری دوم اور سوم نے ان سے لاکھوں پاؤنڈ بھی لیے اور ان کے ماتھے پر شناخت کا ٹیکا لگوا کر ان کا عام لوگوں کے ہاتھوں پٹڑا بھی کروایا۔ یہی فرانس کے شاہ فلپ نے کیا۔ انہیں جیلوں میں ٹھونسا۔ ان سے پیسہ بھی لیا اور انہیں دیس بدر بھی کیا۔ پرتگالیوں کے بھی رویے ایسے ہی تھے۔ ان کے عیسائی پادری تو حلفاً ان سے یہ اقرار کرواتے؛

'میں نجس یہودی ہوں۔ میرے آباء نے سچے مسیح کو صلیب پر چڑھایا'۔

پولش قوم نے انہیں ٹکا کے رگڑا دیا۔ پیسہ بھی ان سے لینا، ادائیگی بھی نہیں کرنی اور نزلہ بھی سارا ان پر اور اوپر سے نعرے بھی توہین آمیز؛ 'یہ یہودی ہمارا خون چوس رہے ہیں۔ دیکھو تو کیسے عالیشان گھروں کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ جلاؤ ان کے گھر۔ تباہ کرو ان کی کالونیاں'۔

اور جرمنوں نے تو سبھوں کو مات دے دی۔ ہولوکاسٹ کا تمغہ ماتھے پر سجا لیا۔

صدیوں سے دربدر ٹھوکریں کھاتی اس قوم کو جب یہودی سائنس دان ڈاکٹر ہیم ویز مین نے اپنے کیمیائی رازوں سے برطانیہ سے سودے بازی کے نتیجے میں فلسطین میں صیہونی ریاست بنانے کا پروانہ عنایت کیا تو انہیں اپنا ہولوکاسٹ یاد رکھنا چاہئیے تھا۔ اپنی تاریخ کو، خود پر بیتے ظلم کو بھولنا نہیں چاہئیے تھا۔ مگر ہوا کیا؟ انہوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ اسی تاریخ کو دہرانا شروع کر دیا جس کا وہ خود شکار ہوئے تھے۔

غریب فلسطینیوں کی اُن کے گھروں سے بے دخلی آرگن Urgun، ہگانا Haguna اور اسٹرن Estern جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں سے جس تیزی کے ساتھ ہوئی وہ بڑی المیہ کہانی ہے۔ نہتے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ جب اور جہاں چاہتے بم بلاسٹ سے گاؤں کے گاؤں ملیامیٹ کر دیتے۔ کوئی پوچھنے والا، کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں تھا۔ دیریاسین جیسے پُرامن شہرت رکھنے والے قصبے کو جس طرح گوریلا دستوں نے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا وہ تاریخ کا ہولناک باب ہے۔ آرگن کے گوریلا دستے جن کی کمانڈ سٹرن کے مرنے کے بعد اب میناحم بیگن کر رہا تھا، اس نے ڈائنامائٹ سے گھر کے گھر اڑا دیے۔ معصوم بچوں اور بوڑھوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ قصبے کا کوئی فرد زندہ نہیں بچا۔

اس اتنے بڑے المناک سانحے پر میناحم بیگن کا بیان ابھی بھی تاریخ میں درج ہے جو انسانیت کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ ہے؛

'دیریاسین فلسطین کا ہولوکاسٹ ہے۔ بھلے ہو۔ میرے لیے سب سے بڑا اعزاز بس یہی ہے کہ میں تاریخ میں اس اہم کارنامے کی وجہ سے زندہ رہ جاؤں کہ اسرائیلی سرزمین کی حدوں کو ابد تک قائم کرنے والا انسان میناحم بیگن تھا'۔

اور یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں۔ اسرائیلی فوجی ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ نوعمر لڑکوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں اور اُن پر اس درجہ تشدد ہوتا ہے کہ وہ ختم ہو جاتے ہیں یا ان کے اعضائے رئیسہ ناکارہ بنا دیے جاتے ہیں۔ خود اسرائیل کی ہیومن رائٹس (Human Rights) کی تنظیموں کی رپورٹیں ہیں کہ فوجی ان کے سروں اور دل کا نشانہ لیتے ہیں۔ غیر ملکی تنظیموں کے نمائندوں کو ان علاقوں میں جانے سے روکا جاتا ہے۔

اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کو تیسرے اور چوتھے درجے کے شہری بنا کر، ان کی زندگیوں کو پابندیوں میں جکڑ کر اُن سے توقع کرتی ہے کہ وہ اپنے غم و غصے کا اظہار بھی نہ کریں۔ اپنی مدافعت میں پتھر، چھری یا مولوٹوف کاک ٹیل استعمال کرنے والے خود بھی مرتے ہیں اور مارتے یہودیوں کو بھی ہیں۔ زیادہ کچھ تو نہیں کر سکتے مگر انہیں نفسیاتی خوف کا شکار ضرور بنا دیا ہے۔

اور اس خوفناک پس منظر کی حامل یہ ریاست پاکستان کو انسانی حقوق کا سبق دے رہی ہے۔ کیسی مضحکہ خیز بات ہے!

سلمیٰ اعوان معروف افسانہ نگار اور ناول نویس ہیں۔ انہوں نے متعدد سفرنامے بھی تحریر کیے ہیں۔