پھر ہمیں قتل ہو آئیں، یارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں، یارو چلو
آج پھر فیض یاد آتے ہیں۔

شہرِ جاناں میں اب با صفا کون ہے؟
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے؟
رختِ دل باندھ لو، دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں، یارو چلو

اس بار پرویز ہودبھائی کو ایف سی کالج سے نکالا گیا ہے۔ جامعہ کا کہنا ہے کہ پرویز ہودبھائی کو نکالا نہیں گیا، ان کا کانٹریکٹ ختم ہو گیا تھا اور یونیورسٹی کا فیصلہ ہے کہ اس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا پرویز ہودبھائی نے بھی مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ہودبھائی کو کسی یونیورسٹی سے نکالا جا رہا ہو۔ اس سے قبل 2012 میں انہیں لاہوری اشرافیہ کی پسندیدہ یونیورسٹی لمز سے بھی نکالا گیا تھا۔

اس موقع پر ایکسپریس ٹربیون میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں نیا دور میڈیا کے بانی ایڈیٹڑ رضا رومی نے لکھا تھا کہ پرویز ہودبھائی کے نکالے جانے سے ان کا تو کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ وہ فزکس بھی جانتے ہیں، اسے پڑھانا بھی جانتے ہیں، بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں، اور ڈان اخبار میں تو ان کا کالم آج کئی سال بعد بھی چھپتا ہے۔ رضا نے لکھا تھا کہ وہ ایک صاف گو شخص ہیں جن کو ہراساں کیا گیا اور ان پر غداری کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔ لیکن وہ خاموش رہنے والی شخصیت نہیں ہیں۔

پاکستانی تعلیمی اداروں میں اس وقت شدید گھٹن کا ماحول ہے جو کہ پاکستان کی لڑکھڑاتی ہوئی جمہوریت اور مذہبی انتہا پسندی کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کی سرکاری یونیورسٹیوں میں تو ویسے ہی اساتذہ پر کئی پابندیاں عائد ہیں لیکن اب نجی تعلیمی ادارے بھی اس حبس زدہ ماحول کا حصہ بن گئے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں سندھ میں اساتذہ کے خلاف توہینِ مذہب کے پرچے درج کروائے گئے ہیں اور ایک پروفیسر کو گرفتار بھی کیا گیا جب کہ ایک نڈر سماجی کارکن عرفانہ ملاح کے خلاف بھی تفتیشی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ ایسے ماحول میں ڈاکٹر ہودبھائی کا فارغ ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔

پرویز ہودبھائی کی سیاسی سوچ اور انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے پر مقتدر حلقے کبھی بھی ان سے خوش نہیں رہے۔ جب انہیں لمز سے نکالا گیا، تب بھی لمز انتظامیہ کا یہی کہنا تھا کہ ان کی تعلیمی قابلیت اس قابل نہ تھی کہ انہیں ان کے عہدے پر برقرار رکھا جاتا۔ لیکن رضا رومی نے لکھا تھا کہ ممکن ہے یونیورسٹی واقعی ایسا سمجھتی ہو، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں میں یونیورسٹی میں مذہبی گروہوں نے اپنے پنجے گاڑے ہیں۔ ان میں تبلیغی جماعت بھی شامل ہے جس نے ماضی میں لمز کے اندر اپنا ایک اچھا خاصہ حلقہ اثر بنا رکھا تھا تو دوسری جانب الہدیٰ ٹرسٹ بھی ہے جو اس زمانے میں یہاں پڑھنے والی طالبات میں خاصی مقبولیت رکھتا تھا۔ ایسے حالات میں ایک ترقی پسند سوچ رکھنے والے پروفیسر کو نکال دینا جو پیغام دے رہا ہے وہ زیادہ مبہم نہیں۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نیم انتہا پسند قسم کے مذہبی عناصر کی بہتات ہونا اتنا غلط نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ گروہ ترقی پسند اور روشن خیال لوگوں کو اپنے ارد گرد برداشت نہیں کرتے۔ یونیورسٹیز میں بیٹھے اعلیٰ عہدیداران یا تو خود ہی اپنے آپ کو نظریاتی سرحدوں کا محافظ تصور کرتے ہیں یا پھر مقتدر قوتوں کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے ایسے اساتذہ کو نہ صرف نوکریوں سے نکالتے ہیں بلکہ جتنا عرصہ وہ کام کرتے ہیں، اس دوران بھی انہیں ہراساں کیا جاتا رہتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ہی لے لیجئے۔

ایک طرف تو وہ سیاسی سرگرمیوں کو بند کرواتے ہیں تو دوسری طرف وہ جنرل مشرف کے حق میں کیمپس میں جلوس کی قیادت کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر عمار علی جان جیسے نوجوان اور طلبہ کو سیاسی شعور دینے والے استاد کو پنجاب یونیورسٹی سے بھی فارغ کر دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ دسمبر میں عمار علی جان کو ایف سی کالج سے بھی فارغ کر دیا گیا تھا۔ وہ طلبہ جو اپنے حقوق کی آواز اٹھاتے ہیں، ان کو کمسنی میں ہی غدار اور ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے تاکہ کسی قسم کی حقیقی تبدیلی کا امکان یکسر ختم کر دیا جائے۔

عمار علی جان پر یونیورسٹی سے نکالے جانے سے چند ہی روز پہلے طلبہ یکجہتی مارچ میں حصہ لینے پر ایک ایف آئی آر کاٹی گئی تھی جس میں ان پر بغاوت کا سنگین الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں ان کے دیگر ساتھیوں میں مشعل خان شہید کے والد اقبال لالا بھی تھے۔ اندازہ کیجئے کہ طلبہ یکجہتی مارچ کا مطالبہ تھا: یونینز کی بحالی، یونیورسٹیوں کی فیسیں کم کرنا، معیارِ تعلیم اور ہاسٹلز میں سہولیات کو بہتر بنانا۔ اور ان مطالبات کو بغاوت گردانا گیا۔

پرویز ہودبھائی ایک بہادر اور نڈر استاد ہیں جو شدید جبر کے دور میں بھی اپنی بات کہنے کے عادی رہے ہیں۔ انہیں ہر دور میں خاموش کروانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن انہوں نے اپنا رستہ نہیں بدلا۔ وہ مذہبی انتہا پسندی کی اس دور میں بھی شدید مخالفت کرتے رہے جب ہمارا میڈیا طالبان کو بچھڑے ہوئے بھائی کہہ کر پچکارتا تھا اور ان کی مخالفت کرنے والوں کے لئے سرِ عام ملک کے سب سے بڑے نجی چینل جیو ٹی وی چینل کے پرائم ٹائم شو پر بیٹھ کر ’بے غیرت‘ جیسے الفاظ تواتر سے استعمال کیے جاتے تھے۔

وہ ایک ایسے معاشرے میں سائنس پڑھانے کی بات کرتے ہیں جہاں آبادی کی ایک بڑی تعداد کا ماننا ہے کہ ڈاکٹر لوگوں کو کورونا کے ٹیکے لگا کر قتل کر رہے ہیں اور ہر موت کے عوض ان کو عالمی ادارے فنڈ دیتے ہیں۔ اس ملک میں لوگوں کو سائنس سے بیر کی حد تک نفرت ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ سائنس کی بات کرنے والے مذہب بیزار ہوتے ہیں۔

پرویز ہودبھائی شہری حقوق کی آواز اٹھانے والے ایک کارکن بھی ہیں۔ جب لال مسجد کے غنڈے عورت آزادی مارچ پر پتھراؤ کرتے ہیں اور مارچ کے شرکا اپنی جانیں بچانے کے لئے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہوتے ہیں تو یہ ایک جگہ اپنا بینر پکڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انہیں حق کی آواز اٹھاتے ہوئے ڈر نہیں لگتا۔

یہ ایک نیوکلیئر فزیسسٹ بھی ہیں۔ لیکن ان کا ماننا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ خطرناک ہے، یہ تباہی لائے گا۔ لہٰذا یہ غدار بھی ٹھہرتے ہیں۔

ایک ایسے ملک میں کہ جہاں حمزہ ژورتژس جیسے نیم ملا فزکس کے بنیادی اصولوں سے بے بہرہ ہونے کے باوجود پرویز ہودبھائی جیسے ماہر استاد کے سامنے دعویٰ کرتے ہیں کہ ایم تھیوری قرآن سے ثابت ہوتی ہے، لیکن جب ہودبھائی ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ قرآن سے ثابت بھلے نہ کیجئے، صرف یہ بتا دیں کہ ایم تھیوری کیا ہوتی ہے تو یہ صاحب دھڑلے سے کہتے ہیں کہ مجھے واقعی نہیں آتی، لیکن لمز جیسے اشرافیہ کے سکول میں بیٹھے طلبہ و طالبات بھی سمجھتے ہیں کہ اس مباحثے میں یہ نیم ملا حمزہ ژورتژس فاتح ٹھہرا، وہاں اگر ایف سی کالج کا فیصلہ ہے کہ پرویز ہودبھائی کے کنٹریکٹ میں مزید توسیع نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ ڈان میں کالم لکھتے ہیں اور ’توسیع‘ کے خلاف ہیں، تو شکایت کیسی؟ ہمیں ایف سی کالج انتظامیہ سے ہمدردی ہے۔