Get Alerts

یورپی اقوام مسلمانوں سے زیادہ یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں

یورپی اقوام مسلمانوں سے زیادہ یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں
مجھے 9 اکتوبر 2019 کا وہ دن نہیں بھولتا جب سینٹرل جرمنی کے شہر ہالے میں ایک نسل پرست دہشتگرد نے یہودیوں کی عبادت گاہ پر اس وقت حملہ آور ہونا چاہا جب عبادت گاہ میں کئی یہودی عبادت میں مصروف تھے۔ حملہ آور اٹھائیس سالہ (اسٹیفن بلیٹ) ایک جرمنی شہری تھا جس کا تعلق جرمنی کی دائیں بازو کی تنظیم سے تھا یہ انتہا پسند دائیں بازو کی جماعت جو جرمنی میں مسلمانوں، یہودیوں، عربوں اور دیگر علاقوں سے آئے مہاجرین سے نفرت کی سیاست کرتی ہے۔ حملہ آور ایک مشہور گییمنگ سائٹ پر براہِ راست موجود تھا جس کی ویڈیو بعد میں جرمن اداروں نے انٹرنیٹ سے ہٹا دی۔ جب اس دہشتگرد سے ہال کا مرکزی دروازہ نہیں کھل پایا تو اس نے باہر راہ چلتے ایک خاتون کو کو گولیاں مار کر قتل کر دیا جبکہ ایک شخص کو زخمی بھی کیا اور پھر کچھ ہی دور ایک ترکش  ریستوراں میں بھی اندھا دھند فائرنگ کرکے ایک شخص کو قتل جبکہ دوسرے شخص کو زخمی کر دیا تھا۔ اگرچہ وہ دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوجاتا تو کئی یہودیوں کی موت کا سبب بنتا اور جرمنوں اور یہودی قوم میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہونے کا ایک اور پہلو کھل کر دنیا کے سامنے آتا۔ یہاں تو یہودیوں کو اپنی روایتی ٹوپی پہننا بھی منع ہے کیونکہ اس سے ان کی شناخت باآسانی ہوجاتی ہے اور ان پر کسی بھی وقت حملے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

وہ تو ایک دہشتگرد تھا، مگر میں نے جرمنی میں اتنے سال رہنے کے بعد جرمنوں کی دوسری قوموں اور نسلوں کے خلاف نفرت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ کئی بار تو میں خود کو لے کر پریشان اس لئے ہوجاتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں، اور پاکستانی بھی۔ جرمن کی ایک بڑی تعداد عربوں کے بعد دوسرے خطوں کے مسلمانوں اور دیگر نسلوں سے بھی تعصب رکھتی ہے اور اس تعصب کا میں نشانہ بن چکا ہوں یہاں تک کہ سن دو ہزار اٹھارہ میں ایک دائیں بازو کی جماعت کے دہشت گرد نے مجھ پر جان لیوا حملہ کرکے مجھے قتل کرنے کی ناکام کوشش کی، وہ کہتے ہیں نا کہ جو رات قبر کی ہے وہ باہر کی نہیں ہو سکتی بس وہ رات میرے قبر کی نہیں تھی شاید اس لیے زخمی حالت میں وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور پولیس سے مدد طلب کی۔

اور اگر سوچا جائے تو تاریخی طور پر بھی یہودیوں کا مسلمانوں سے، یا عربوں سے اتنا مسئلہ کبھی رہا بھی نہیں ہے۔ یہودیوں کی ٹسل یورپیوں کے ساتھ ہے اور اس کا ظاہراً آغاز ہٹلر کی یہود نسل کشی کا سانحہ تھا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہٹلر سے پہلے یورپ میں یہودیوں کے خلاف نفرت نہیں پائی جاتی تھی۔ روس میں بالشویک انقلاب کے بعد جن سرمایہ داروں کو لندن یا یورپ کے دوسرے علاقوں میں جلاوطن کردیا گیا تھا تو انہوں نے اس سرخ انقلاب کو بھی یہودی سازش کا نام دے کر عوام کو اس بات پر قائل کیا تھا کہ یہودی قوم یورپیوں سے کتنی نفرت کرتی ہے۔ اس تاریخی نفرت کے کھیل کا حال میں بھی نقشہ کچھ مختلف نہیں ہے۔ آج بھی یورپی عوام کی ایک بڑی تعداد یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں اور ان کو دل سے تسلیم نہیں کرتے۔ بے شک ان کو یورپی ممالک کے حکمران کتنا ہی سر پہ کیوں نہ بٹھا لیں۔

کچھ روز پہلے میرے ایک بہت اچھے دوست جو پولینڈ کے ایک سیاستدان ہیں، ان سے اسرائیل فلسطین مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ یہودی دراصل اس دہشتگردی سے ہمیں پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم کتنے بااثر ہوگئے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے یورپ میں اپنے پنجے گاڑے اور بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومتیں ان کو فوری شہریت دے دیتی ہیں اور ان کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے، یہ باتیں عوام کو بالکل نہیں بھاتیں۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ پولینڈ سمیت یورپی عوام کی ایک بڑی تعداد اس وقت اسرائیل کے فلسطین پر مظالم کو اس نظر سے دیکھتی ہے جس سے میں دیکھ رہا ہوں۔

حد یہ کہ اسرائیل سارے عرب ممالک کو اس ظلم پر بھی اپنی حمایت میں کر کے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ ہٹلر کے مظالم کو ابھی تک نہیں بھولا اور وہ اس کا بدلا یورپیوں سے لے کر ہی رہے گا۔ یورپی یونین کے بعد عرب ممالک کی یونین کا بھی لاڈلا بن کر اسرائیل جو اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے ان میں سے یہ حدف ایک اندازے کے مطابق یہی معلوم ہوتا ہے۔

مزید یہ بھی کہ اسرائیل اس جنگ کو چاہے گا کہ کبھی ختم نہ ہو اور فلسطینیوں کا خون ناحق بہاتا رہے۔ میرے مطابق اس کی وجہ  عربیوں سے نفرت نہیں بلکہ یورپیوں سے نفرت ہے۔ یہ کمزور عربوں کو اپنا نشانہ بنا کر اپنی بدمعاشی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اس بار حماس کی طرف سے اسرائیل کو منہ توڑ اور بھرپور جواب  تو ضرور ہے مگر اسرائیل کے مقاصد کو بھی سمجھنا یہاں بہت ضروری ہے۔ اسرائیل چاہے گا کہ وہ فلسطینیوں پر مظالم ہمیشہ جاری رکھے، اس طرح وہ دوسرے خطوں کے عوام، خاص کر یورپین عوام کو اپنے دباؤ کے اثر میں رکھنا چاہے گا۔ اس وقت اگرعقلمندی کی جائے تو یہودیوں کی یورپیوں اور یورپیوں کی یہودیوں سے نفرت کے پہلوؤں کو بڑی بحث کا حصہ بنائیں تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ کون کس کا کتنا بڑا دشمن ہے۔

وہ دن دور نہیں جب یہودی پورے یورپ پر حکومت کریں گے اور یہودیوں کی نسل کشی کا بدلہ پورا کریں گے۔ یہودیوں نے اپنی جڑیں یورپ میں مضبوط کرنا شروع کردی ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ ہے کہ یہودی اپنا بدلہ کبھی نہیں بھولتے چاہے عرصہ دراز ہی کیوں نا بیت جائے۔

عزت میں ٹاور ہاؤسنگ الجزیرہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس دفاتر زمین بوس کرکے اسرائیل نے یورپ کو اس قدر خوف میں مبتلا کر دیا ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اس بات کا ثبوت یورپی میڈیا کی خاموشی  ہے یورپی میڈیا وہی دیکھا رہا ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔

مصنف جرمنی میں مقیم ہیں اور ایک انسانی حقوق کی تنظیم کے ساتھ منسلک ہیں۔ @SHussainShokat پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔