آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج، وزیراعظم عمران خان کے لیے ایک سنجیدہ سیاسی دھچکا

پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے میں کئی مہینوں کے مشکل مذاکرات کے بعد بالآخر اتوار کے روز دونوں فریقوں نے یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے لیے تازہ بیل آئوٹ پیکیج پر اہم نکات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی انتظامیہ یہ نکات قبول کر لیتی ہے تو پاکستان کو ادائیگیوں کے بحران پر قابو پانے کے لیے اگلے تین برس کے لیے چھ ارب ڈالر کا قرضہ مل جائے گا۔

پاکستان کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے سرکاری ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کا آئی ایم ایف سے آخری بیل آئوٹ پیکیج ہو گا۔



وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کے ذریعے پاکستان کو ادائیگیوں کے بحران پر قابو پانے میں مدد حاصل ہو گی۔ اس وقت 12 ارب ڈالر کا فرق ہے اور حالیہ بیل آئوٹ پیکیج ناصرف رواں برس بلکہ اگلے تین برس تک اس فرق پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو گا۔

واضح رہے کہ پاکستان 1980ء کی دہائی سے آئی ایم ایف سے متعدد بار بیل آئوٹ پیکیج حاصل کر چکا ہے لیکن عمران خان درحقیقت آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے تناظر میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے کیوں کہ وہ خوفزدہ تھے کہ آئی ایم ایف حکومتی پالیسیوں کے تناظر میں کڑی شرائط عائد کرے گا۔ عمران خان انتظامیہ نے آئی ایم ایف کے بجائے دوست ملکوں چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ملک کو درپیش معاشی بحران کو حل کیا جا سکے۔

ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق، لیکن افراط زر آٹھ  فی صد تک بڑھ جانے کے باعث گزشتہ برس کے دوران روپے کی قدر میں تین گنا کمی ہوئی اور بیرونی ذرمبادلہ کے ذخائر محض دو ماہ کی درآمدات کے لیے ہی کافی رہ گئے جس کے باعث آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔



تجزیہ کاروں نے خبردار کیا تھا کہ آئی ایم ایف سے کیا گیا کوئی بھی معاہدہ سخت شرائط کا حامل ہو گا جس کے باعث عمران خان کے لیے پاکستان کو ’’اسلامی فلاحی ریاست‘‘ بنانے کا خواب پورا کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سنٹر فار سکالرز کے جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کیوجلمین کہتے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ کیا گیا سخت شرائط کا حامل معاہدہ ایک ایسی پاکستانی حکومت کے لیے سیاسی دھچکا ثابت ہو گا جس نے ایک نئی فلاحی ریاست بنانے کا خواب دکھایا تھا۔ عمران خان کے لیے اپنے معاشی وعدوں پر پورا اترنا مشکل ہو جائے گا جس کے باعث ان کا وہ تاثر مجروح ہو گا جو انہوں نے بظاہر ووٹروں کو دکھانے کی کوشش کی تھی۔

پاکستان کے معروف ماہر معاشیات قیصر بنگالی کا نقطہ نظر بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، آئی ایم ایف کا ملکی اثاثوں کی نجکاری کا واضح ایجنڈا ہے جس کے باعث بڑے پیمانے پر بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔

لیکن ماہر معاشیات عابد سلہری اس نقطہ نظر سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، اس معاہدے سے غیر یقینی کی صورت حال ختم ہو گی اور پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہو گی۔

وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ چین پاکستان کی مدد کے لیے کیوں آگے نہیں بڑھا؟ انہوں نے کہا، چین پہلے سے ہی پاکستان کو تجارت اور انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے فنڈز فراہم کر رہا ہے اور ہم نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا فیصلہ معیشت میں ساختیاتی اصلاحات متعارف کروانے کے لیے کیا۔



واضح رہے کہ امریکہ کا آئی ایم ایف پر گہرا اثر ہے جس نے گزشتہ سال خبردار کیا تھا کہ پاکستان کو دیا جانے والا بیل آئوٹ پیکیج کسی طور پر چین کا قرض اتارنے کے لیے استعمال نہ ہو۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا، کوئی غلطی نہ ہو۔ ہم آئی ایم ایف پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔