کیا اقلیتوں کے ساتھ جیل میں بھی امتیازی سلوک ہوتا ہے!

کیا اقلیتوں کے ساتھ جیل میں بھی امتیازی سلوک ہوتا ہے!
کاشف مسیح نامی ایک شہری نے 07 مارچ 2022 کو لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ "اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو بھی ان کے مذہبی کتابوں کا حفظ کرنے یا مذہبی تعلیم حاصل کرنے پر سزا میں معافی دی جائے، کیونکہ 1973 کے آئین کی شق 10 اے فیئر ٹرائل جبکہ شق نمبر 20 مذہبی عبادت کا حق مہیا کرتی ہے"۔

اس پٹیشن کا پس منظر یہ ہے کہ پنجاب کی جیلوں میں قید کاٹنے والے ایسے مسلمان قیدیوں کو 'پرزنرز رولز 1978' کے رول نمبر 215 کے تحت سزا میں معافی دی جاتی ہے جو کہ قران حفظ کرتے ہیں۔ جبکہ عیسائی، سکھ، ہندو یا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اس طرح کا مساوی حق میسر نہیں ہے۔

11 مئی 2022 کو سپریم کورٹ میں پیش کی گئی وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی 116 جیلوں میں 88 ہزار 650 قیدی موجود ہیں۔ جن میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدی بھی شامل ہیں۔

صوبہ سندھ میں ہوم ڈپارٹمنٹ کے زیر انتظام 24 جیل قائم ہیں جن میں ایک تخمینے کے مطابق لگ بھگ 20 ہزار افراد پابند سلاسل ہیں۔ واضح رہے کہ ان قیدیوں کی آدھی سے زیادہ تعداد اپنے خلاف قائم ہونے والے مقدمات کے فیصلوں کی منتظر ہے۔

محکمہ جیل کے ذرائع سے اکٹھی کی گئی معلومات کے مطابق "سندھ کی جیلوں میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ان کی تعداد 150 سے 200 کے درمیان ہو سکتی ہے۔ جن میں ہندوؤں کی تعداد دیگر کی نسبت زیادہ ہے۔ " جیل ذرائع نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ "ہندوؤں میں ذات پات اور رتبے کی تفریق کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کی جائے تو ہندو قیدیوں میں بھی اکثریت نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں کی ہے ۔ جن پر اغوا اور قتل جیسے مقدمات بھی بنتے ہیں جب کہ مالدار ہندو زیادہ تر مالی جرائم کے مقدمات کی بناء پر جیلوں میں بند ہوتے ہیں اور سزا سے پہلے ہی تصفیہ کر کے رہا ہوجاتے ہیں"۔

سزا میں ملنے والی نرمی سے متعلق اکٹھی کی گئی معلومات کے مطابق "قیدیوں کو خصوصی معافی اورعام طرح کی سزا معافی میسر آتی ہیں۔ خصوصی معافی حکومت کی جانب سے عیدوں، 14 اگست، 23 مارچ یا کسی بھی قومی دن کے موقعے پر دی جاتی ہے جس کا فائدہ جاسوسی، دہشتگردی اور دیگر سنگین جرائم میں سزا یافتہ قیدیوں کو نہیں ملتا۔ جبکہ عام نوعیت کی معافی ایسے قیدیوں کو ملتی ہے جو کہ اپنی سزا کا دو تہائی دورانیہ پورا کرچکے ہوں۔ اس طرح کی معافی جیل مینوئل کے مطابق اچھی چال چلن کے حامل ان قیدیوں کو دی جاتی ہے جو جیل کے اندر روزمرہ کے کام سرانجام دیتے ہیں مثال کے طور پر ایسے قیدی جو جیل کے باورچی خانے میں کھانا پکاتے ہوں، جیل کی فیکٹری میں مشقت کرتے ہوں یا خون کا عطیہ دیتے ہوں۔ جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر ہفتے کے پانچ دن کام کرنے والے قیدیوں کوایک مہینے کے دوران سزا میں 5 دن کی معافی دی جاتی ہے، خون کا عطیہ دینے والے کی سزا میں 30 دن کی کمی کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ایک قیدی سزا کے دوران 3 مرتبہ خون عطیہ کرسکتا ہے جبکہ کوئی بھی قیدی 6 ماہ کےدوران صرف ایک مرتبہ خون عطیہ کرسکتا ہے۔ فیکٹری میں کام کرنے والے قیدی کا چال چلن اچھا ہو تو اسے ایک ماہ کے دوران 15 دن کی معافی بھی میسر آ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈگری امتحان جیسا کہ میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحان پاس کرنے پر بھی قیدی سزا میں کمی کے مستحق قرار دیئے جاتے ہیں۔ جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ سانپ کو مارنے پر بھی سزا میں کمی کی جاتی ہے۔ مذکورہ بالا معافیاں تمام قیدیوں کو بلا امتیاز میسر آتی ہیں، جبکہ قران حفظ کرنے یا قران ناظرہ اور دیگر مذہبی خدمات کے عوض سزا میں معافی صرف مسلمان قیدیوں کو ہی میسر آتی ہے۔

اس موضوع پر سندھ کے سابق آئی جی جیلز نصرت منگن نے کہا کہ "مسلمان قیدیوں کو حفظ قران یا ناظرہ کی بناء پر سزا معافی کا فیصلہ ایک بورڈ کرتا ہے جس میں مذہبی عالم اور خطیب شام ہوتےہیں"۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ "سندھ کی جیلوں میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ لیکن ان کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جاتا۔ انہیں عبادت کی سہلویت میسر کی جاتی ہے۔ تاہم میری معلومات میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ کسی ہندو قیدی نے اپنے کسی مذہبی کتاب کا باقاعدگی سے ورد کیا ہو اور اس نے اس کے عوض سزا میں معافی چاہی ہو۔ "۔ نصرت منگن نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ"ہندو یا عیسائی قیدیوں سے برابری کا سلوک کیا جاتا ہے ایسے ہندو قیدی جو گوشت مچھلی نہیں کھاتے ان کو صرف سبزیوں والے کھانے دیئے جاتے ہیں"۔

سندھ کی جیلوں کے موجودہ آئی جی قاضی نظیر احمد نےبھی  رابطہ کرنے پر مختصر موقف دیتے ہوئے کہا کہ "تمام قیدیوں کو سزائوں میں نرمی برابری کی بنیاد پر دی جاتی ہے غیرمسلموں سے کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا اور قیدیوں کے سزا میں کمی قوانین اور حکومتی اعلانات کے مطابق کی جاتی ہے"۔

واضح رہے کہ ملک کے غیر مسلم قیدی بھی عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے مواقع پر ملنے والی سزا معافی سے  مستفیدہوتے ہیں تاہم انہیں کرسمس یا ہولی جیسے تہواروں کی مناسبت سے خصوصی معافی نہیں دی جاتی ۔ جبکہ ملک کی تمام جیلوں کے اندر مسلمان قیدیوں کی عبادت کیلئے مسجدیں قائم اور پیش امام مقرر ہیں۔ جبکہ خطیب اور قاری قیدیوں کو قران حفظ کرواتےہیں۔ کراچی سینٹرل جیل وہ واحد قید خانہ ہے جہاں حال ہی میں عیسائی قیدیوں کیلئے گرجا گھر قائم کیا گیا ہے۔ جبکہ ہندو قیدیوں کیلئے صوبے کی کسی  جیل میں اب تک مندر قائم نہیں کیا گیا۔ حالانکہ ملک کا آئین تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک پر زور دیتا ہے۔ آئین کے اسی تناظرمیں سندھ اسمبلی کی جانب سے منظور کئے گئے 'سندھ پرزنرز اینڈ کریکشنز سروسز ایکٹ 2019' کی  شقG میں کہا گیا ہے کہ"قیدیوں کے ساتھ نسل، رنگ، صنف، زبان، مذہب، عقیدے، سیاسی تعلق ، قومیت  کی بناء پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا اور بحالی کے پروگراموں میں حصہ لینے والے سزا یافتہ قیدیوں کو مراعات بصورت خصوصی معافی کی شکل میں یا جیسا کہ تجویز کیا گیا ہو، دی جائیں گی"۔

پاکستان بار کونسل کے سابق رکن اور سپریم کورٹ کے وکیل ایڈووکیٹ شبیر شر نے اس متعلق کہا ہے کہ "قران حفظ کرنے کے بعد مسلمان قیدی کو 6 ماہ سزا معافی دی جاتی ہے۔ اسی طرح کا حق غیر مسلم قیدیوں کو بھی دیا جانا چاہئے کہ اگر کوئی عیسائی بائبل پڑھے یا کوئی ہندو گیتا کا پاٹھ کرے تو اس کی سزا میں بھی کمی ہونی چاہئے  لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں رہا۔ یہ طرز عمل امتیازی سلوک پر مشتمل ہے،جو کہ خلاف آئین و قانون ہے۔ ہم نے اس پر کافی دفعہ بات کی ہے تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنے کیلئے رولز میں ترمیم کرنا ضروری ہے اور رولز میں ترمیم صوبائی اسمبلی کرسکتی ہے۔"۔ ایڈووکیٹ شبیر شر نے کہا کہ "میری اراکین سندھ اسمبلی سے درخواست ہے کہ وہ ایسی ترمیم کریں تاکہ تمام قیدیوں کے ساتھ آئین کے مطابق یکساں سلوک ہوسکے"۔