کتاب میں آسیہ بی بی نے کہا کہ میں جنونیت کی اسیر تھی ، جیل میں آنسو صرف میرے ساتھی تھے۔
میری کلائی جلتی رہتی تھی، سانس لینا مشکل ہوتا تھا، میری گردن میں طوق رہتا تھا، وہاں عیسائیوں کی زندگی مشکل ہے۔
انہوں نے لکھا کہ دیگر کئی قیدیوں نے کبھی رحم ظاہر نہیں کیا۔ ’میں عورتوں کی چیخوں سے حیران ہو جاتی تھی۔ کئی عورتیں چیخ چیخ کر کہتیں، ’اسے پھانسی دو۔‘
آسیہ نے کتاب میں کہا کہ میرا دل اس وقت ٹوٹ گیا جب میں اپنے باپ اور خاندان کے دیگر افراد کو ملے بغیر چلی آئی۔ پاکستان میرا ملک ہے۔ مجھے اپنے ملک سے پیار ہے لیکن میں تمام زندگی کے لیے جلا وطن ہو گئی ہوں۔‘
آسیہ بی بی نے کتاب میں خود پر توہین مذہب کے لگے الزام سے انکار کو دہرایا اور خوف کا اظہار کیا کہ مسیحی اقلیت کے خلاف مقدمات اب بھی جاری ہیں۔
آسیہ بی بی نے اپنی خود نوشت صحافی این ایزابیل ٹولے کی مدد سے لکھی ہے۔